انسہ بلوچ مزاحمت کی نشانی – ظفر رند

420

انسہ بلوچ مزاحمت کی نشانی

تحریر: ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

پہلی دفعہ میں نے بانک انسہ کو 2018 کو شال کے پریس کلب میں دیکھا جب وہ اپنے جوان بھائی کے جبری گمشدگی کے خلاف اپنی فیملی کے ساتھ احتجاج میں بیٹھی تھی اس وقت وہ بہت چھوٹی بچی تھی شاید اسکو ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتاتھا مگر اسے جبر نے اتنا مجبور کیا کے وہ اسکول کے بدلے پریس کلب کے سامنے آئی اور اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف مزاحمت کرتی رہی۔

یہ وہ انسہ تھی جسکے ہونٹوں میں مسکراہٹیں ہونی چاہیں تھی مگر بدقسمتی سے اس نظام نے اسے اتنا مجبور کیا کہ ہنسنے کے بجائے اسکی آنکھوں کے آنسو نہیں رکے اور انسہ کی آنسووں نے ایک بار پر بلوچ سوسائٹی کے جمود کو توڑ دیا اور ایک بار پھر دوبارہ بڑی تعداد میں عوام باہر نکل کر اس ظلم اور زیادتی کے خلاف جدوجہد کرنے روڈوں پر آگیا۔

اسی دوران بدقسمتی سے ہمارا ایک ساتھی سنگت جیئند بلوچ اپنے بھائی سمیت باپ کے ہمراہ بھی اسی جبر کا شکار ہوا اسے بھی سلاخوں کے پیچھے قید کردیا گیا تب ہم اپنے ساتھی کو ڈھونڈنے روڈوں پر نکل پڑے وہاں بھی چھوٹی سی بچی انسہ بلوچ سب سے پہلے صف میں کھڑی ہوکر بلوچ کا نمائندگی کررہی تھی۔

یہ جبر یہاں تک نہیں رکا بلکہ کچھ دنوں بعد ہمارے تین اور ساتھیوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اسی دوران انسہ صرف اپنی بھائی کے لیے آواز نہیں اٹھا رہی تھی بلکہ تمام بلوچ لاپتہ افرادوں کے لیے آواز اٹھا رہی تھی اور انصاف کا مطالبہ کررہی تھی انسہ سے آخری ملاقات میرا اسی شال پریس کلب کے سامنے ہوا اسکے بعد میں انسہ سے ملا نہیں ہوں اور نہ ہے اسکودوبارہ دیکھا۔

کچھ دنوں پہلے جب اس وحشی اور دہشتگرد کرایہ کے قاتلوں نے ہمارے گھر حملہ کیا اور شہید رامز کو شہید کیا اور اسکے چھوٹے بھائی کو زخمی کیا اور اسکے باپ کو اغواء کیا تو ہم نے روڈوں پر انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے پہلے تربت اور پھر شال کا رخ کیا شال تب ہم پہنچے تو وہاں وہی چھوٹی بچی انسہ بلوچ اپنے ہم عمر شہید رامز کو انصاف دلانے چارٹ لیکر کھڑی تھی اور زور زور سے نعرہ بازی کررہی تھی۔

انسہ نہ صرف اپنے بھائی کے لیے روڈوں پر نکلتی ہے بلکہ بلوچستان میں ہونے والے ہر ظلم ءُ نہ انصافی کے خلاف روڈوں پر نکل کر جدوجہد کرتی ہے کچھ دن ہوا ہی نہیں کے وہ شہید رامز کو انصاف دلانے میں روڑوں پر بیٹھی تھی اسی دہشتگرد پولیس نے اسکے گھر میں گھس کر لوٹ مار کرکے گھر والوں کو زدکوب کرکے انکے جوانسال بھائی کو جبری طور اپنے ساتھ لیکر گئے۔

بلوچستان میں جو بھی ظلم اور زیادتی کے خلاف بغاوت کرتی ہے تو اسے دبانے کے لیے انکے گھر میں گھسُ کر اسے دبانے کی ناکام کوشش کیا جاتا ہے۔

انسہ نہ کل خاموش رہی تھی اور نہ آج خاموش ہوگی وہ مزاحمت کریگی

ہر باشعور شخص پر فرض ہیکہ وہ انسہ کے ساتھ ہم آواز بنیں اور انسہ کو انصاف دلانے میں کردار ادا کریں کیونکہ انسہ صرف ایک گھر کی بچی نہیں بلکہ بلوچ قوم کا بچی ہے جو ہر ظلم ءُ نہ انصافی کے خلاف آواز اٹھاتی ہے مزاحمت کرتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں