بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر بلوچستان کے تمام اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اساتذہ نے اپنے اس شعبہ میں مخلصی و ایماندری سے شب و روز کی جدوجہد بدولت بلوچ قومی شعور کو پروان چڑھانے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا۔ انھی اساتذہ نے اپنے پیشے سے انصاف کرتے ہوئے بلوچستان کے تاریک گدانوں میں علم کے چراغ جلانے کا کردار ادا کیا۔
ترجمان نے کہا کہ آج دنیا نے علمی حوالے سے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اس علمی انقلاب اور ٹیکنالوجی میں ہر طرح سے مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ان مہارتوں کو انسانی سہولیات اور برابری میں جذب کرنے میں ان دانشمند استادوں کا نمایاں کردار ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرسکتے ہیں جو اپنے استادوں کی فکری و شعوری سرمایہ کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے ہے۔باشعور اقوام کے لیے اساتذہ ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ درس و تدریس سے منسلک شعور و نظریات رکھنے والے دانشور ہی قوم کے مستقبل کا تعین کرنے والے قومی اثاثے کے طور پر گردانے جاتے ہیں۔ یہیں وہ طبقہ ہے جو نئی نسل کو علم و شعور سے لیس کرتی ہے اور قومی بنیادوں پر اُن کی تربیت کرتے ہوئے قوم کے مستقبل کا ضامن بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اقوام اپنے اساتذہ کو قومی اثاثہ سمجھ کر انھیں تاریخی حیثیت عطا کرتے ہیں۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ وہ قومیں خوش نصیب اور خوشحالی کے عظیم مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں جو اپنے اساتذہ کرام کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ آج بلوچ کے پاس ایسے بے شمار اثاثے ہیں۔ جنہوں نے علمی و نظریاتی جدوجہد کی بنیاد پر بلوچ نیشل ازم کے نظریہ کو زندہ رکھنے کیلئے اپنی پوری زندگی کو بلوچ قوم کے لیے وقف کیا اور انہی میں سے عظیم بلوچ اساتذہ نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے آپ کو تاریخ میں امر کر دیا۔ انہی اثاثوں کے عظیم جدوجہد کے بدولت آج بلوچ قوم اپنے قومی شعور سے لیس ہے۔
آج یوم اساتذہ کے موقع پر بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ان تمام اساتذہ کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی زندگی اس عظیم شعبہ کے ساتھ بلا غرض وقف کردیا ہے۔ اور وہ اساتذہ قابل قدر ہے جو بغیر سہولیات کے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں شب و روز بلوچ نوجوانوں کے درس و تدریس میں مشغول ہے اور قومی جزبے سے سرشار اس کوشش میں مگن ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو قومی شعور سے آراستہ کرسکے۔
بیان کے آخر میں مرکزی ترجمان نے بلوچ نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آج اس نازک دور میں ہمیں اپنے استادوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا وہ استاد جو ہمیں اس وقت علم و شعور سے آراستہ کر رہے ہیں، اور وہ استاد جنہوں نے اپنی زندگیوں کا نظرانہ پیش کرکے امر ہوچکے ہے۔ ہمیں اپنے عمل سے انکی کاوشوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔