کینسر اور بلوچستان – زرینہ بلوچ

155

کینسر اور بلوچستان

تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کینسر سے مُراد ایسی بیماری جس میں جسمانی خلیے بے قابو ہو کر تقسیم ہونے لگتے ہیں اور پھر یہی خلیے نارمل خلیوں کو بھی تباہ کرکے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ہمارے جسم کا گروتھ کنٹرول کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے اور اس طرح پرانے عمر رسیدہ سیلز اپنے متعین وقت پر ختم نہیں ہو پاتے اور نئے بننے والے سیلز بھی بلا ضرورت بنتے رہتے ہیں۔یہ سیلز بے قابو ہو کر ایک گچھے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جیسے ٹیومر کہتے ہیں۔

کینسر ایک ایسی وبا ہے جو بلوچستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ہے جس نے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔بلوچستان کی زیادہ تر علاقوں میں کینسر کے بہت زیادہ مریض نظر آتے ہیں لیکن کینسر کا ایک بھی ہسپتال نظر نہیں آتا ہے۔ بلوچستان کے عوام اپنی مدد آپ کے تحت اپنا علاج کرا رہے ہیں۔ اپنے علاج کیلے عام عوام سے چندہ اکٹھا کرکے کینسر کے مریضوں کو لوگ پیسے دیتے ہیں۔

کینسر کے مریض اپنی طرف سے پوری کوشش کرکے کینسر سے لڑتے ہیں لیکن کینسر ایک ایسی وبا ہے جس نے بہت سے پھول مُرجھا دیئے۔ کچھ مہینے پہلے حمل ظفر کینسر سے لڑتے لڑتے اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ حمل ظفر نے پوری کوشش کی کہ کینسر کو شکست دے لیکن بد قسمتی سے کینسر جیت گیا اسی طرح بلوچی زبان کے نامور گلوکار عبداللہ ثناء نے بھی کینسر سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دی۔کوہِ سلیمان کا احمد بلوچ بھی زندگی کا جنگ ہار گیا اور کینسر جیت گیا۔

بلوچستان میں ایسے بہت سے کیسسز ہیں جو کھبی سامنے نہیں آتے اور کچھ سامنے آجاتی ہیں لیکن کینسر نے اپنے زیادہ تر مریضوں کو لقمہ اجل بنا دیا ہے۔ کینسر کے مریض دن رات موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ جینا ہر کوئی چاہتا ہیں لیکن کینسر ایسی وبا ہے کہ لوگوں سے انکی زندگیاں چھین رہا ہے۔ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا کتنے لوگ کینسر کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دو بیٹھیں گے؟ بلوچستان کو کینسر کے ہسپتال اور اچھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیئے کہ بلوچستان کیلئے کینسر ہسپتال اور دوا خانہ بنائے جو لوگوں کی مفت میں علاج کرائے انہیں انجکشن اور میڈیسن دے، کینسر کے علاج کا خرچہ غریب کی بس کی بات نہیں ہے حکومت کو چاہیئے کہ فنڈنگ کا پروگرام بلوچستان میں شروع کر دیں جو کینسر کے مریضوں کا علاج کرائے اور انکے زندگی کی امید کی کرن بن جائے۔

اگر ہمارے حکمران تھوڑی سے ہمت کر لیں تو بہت سے لوگوں کی زندگی بچ سکتی ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی چاہیئے کہ ہر ایک مریض کی جتنی جلدی ہو سکے مدد کریں جتنا ہو سکے ضروری نہیں ہے کسی کی مدد کیلے آپ کے پاس ایک لاکھ روپے ہوں اگر ہم ایک ہزار یا ایک سو روپے بھی دیں تو مریض کی چھوٹی سے مدد بھی ہوسکتی ہیں اگر ایک علاقے میں ایک ہزار لوگ رہتے ہیں، اگر سب ہمت کر کے فی شخص سو روپے دے تو ایک لاکھ بن سکتے ہیں ۔حکومت اگر کسی کی مدد کرے یا نا کرے ہم سب کو ایک دوسری کی مدد کرنی چاہیئے کیونکہ کینسر بلوچستان میں پھیل چُکا ہے، کسی کو بھی یہ بیماری ہو سکتی اصلی کوشش کریں دوسروں کی مدد کرنے کی۔

میں ریاست مدینہ کے حکمرانوں سے اپیل کرتی ہوں خدا کیلے بلوچستان میں کینسر کے ہسپتال بنائے کینسر کے مریضوں کیلے فنڈنگ دیں تاکہ انکا علاج بوقت ہوسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں