دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے پاکستانی فورسز آٹھ کوہ پیماوں کو حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
فورسز نے کوئٹہ کے علاقے کلی سہراب قمبرانی میں شادی کی تقریب میں موجود آٹھ نوجوانوں کو حراست بعد لاپتہ کیا۔ فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے آٹھوں نوجوانوں کی شناخت منصور قمبرانی، واسع قمبرانی، داؤد قمبرانی، زبیر قمبرانی، عزیر زہری، شکیل شاہوانی، عمیر زہری اور شبیر سمالانی کے ناموں سے ہوئے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق مذکورہ نوجوان شادی کی تقریب میں شریک تھے کہ فورسز کی بھاری نفری نے آکر نوجوانوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
خیال رہے مذکورہ افراد میں شامل منصور قمبرانی رواں سال جون کے مہینے میں حراست بعد گمشدگی کا شکار ہونے کے بعد بازیاب ہوئے تھے۔ منصور قمبرانی مقامی سطح پر قائم مرید ایڈونچر کلب کے کوہ پیماء ہے جبکہ دیگر نوجوانوں کا تعلق بھی اسی کلب سے ہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے تاہم ان جبری گمشدگیوں میں رواں سال اگست کے مہینے میں مزید تیزی آئی ہے۔ رواں سال اگست کے مہینے میں بلوچستان کے مختلف اضلاع سے دس سے زائد افراد حراست بعد گمشدگی کا شکار ہوئے تھے جن میں ماہیگیر اتحاد کے جنرل سیکرٹری یونس انور بھی شامل تھے جو بعد میں بازیاب ہوئے۔
رواں مہینے ستمبر میں مستونگ اور کوئٹہ سے 4 نوجوان جبری گمشدگی کا شکار ہوئیں ہیں۔ یکم ستمبر کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے پاکستانی فورسز نے گھروں پر چھاپے مارکر فیاض بلوچ ولد حاجی محمد اعظم سرپرہ سکنہ جیل روڈ ہدہ اور جاوید شمس ولد شمس الحق سرپرہ سکنہ کیچی بیگ کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جبکہ اسی روز مستونگ سے نوشکی جاتے ہوئے دو نوجوان زاکر بلوچ ولد محمد یوسف اور مدثر ولد ٹکری سیف اللہ سرپرہ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے۔
بلوچستان میں قائم لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق رواں مہینے جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح کئی افراد جعلی مقابلوں میں قتل کردیئے گئے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے بلوچستان پر عالمی اداروں کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سے بلوچستان ایک مقتل گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ایک تعداد کے مطابق بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے افراد کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے اور ان میں 7 ہزار افراد قتل کرکے لاشیں پھینکی گئی ہے۔
عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کو انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے پاکستان سے سیاسی کارکنان کے جبری گمشدگیوں کو روکنے کی درخواست کی ہے۔