کوئٹہ میں طلباء پر پولیس تشدد، کوئٹہ، اوتھل اور کراچی میں احتجاج

150

 

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی اپیل پر جمعرات کے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ، لسبیلہ کے ہیڈ کوارٹر اوتھل اور سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں گذشتہ روز کوئٹہ میں میڈیکل کے طلباء پر پولیس تشدد کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں نکالیں گئی-

بلوچستان کے مختلف طلباء تنظیموں کے کارکنان اور دیگر طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے طلباء پر پولیس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے میڈیکل طلباء کی مطالبات تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا –

کوئٹہ، کراچی اور اوتھل میں مظاہرین نے گذشتہ روز پرامن طلباء ریلی پر ریاستی طاقت کی بے دریغ استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے تشدد سے طلباء کو اپنے حقوق سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا ہے –

بلوچستان کے طلباء نے پی ایم سی آئن لائن ٹیسٹ کو مسترد کرتے کہا کہ بلوچستان میں یہ مکمن نہیں ہے –

دریں اثناء کوئٹہ پریس کلب میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے طالبعلم تعلیمی اداروں سے قاصر ہیں وہیں محدود تعداد میں قائم جامعات تمام قسم کے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، تعلیمی اداروں کی قلت اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود بلوچستان کے طالبعلم اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایسے مقام پر پہنچتے ہیں جہاں ان کے مستقبل کی راہیں تعین ہوتی ہیں-

مختلف مصائب اور تکالیف کو برداشت کرنے کے باوجود جہاں طالبعلم اعلی تعلیم حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں وہی اُن کے راہ میں تسلسل کے ساتھ رکاوٹیں حائل کی جارہی ہیں۔ کہیں آن لائن کلاسز کے نام پر طلبا کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کی گئی تو کہیں جامعہ بلوچستان میں کیمرے نصب کرنے جیسے گھناؤنے واقعات رونما ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں ایک جانب طلبا سیاست پر قدغن عائد کی گئی وہیں طالبعلموں کے پرامن احتجاجوں کو بھی تشدد کے نظر کیا گیا۔ بلوچستان میں طالبعلموں پر جبر کا تسلسل روانی کے ساتھ رواں دواں ہے جبکہ حکومت نے مکمل خاموشی کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔

بلوچستان کے طالبعلم جہاں پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں وہی اعلی تعلیم کے لیے انھیں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طالبعلم طب کے شعبے سے منسلک ہونے کی آس لیے میڈیکل کے ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں جن میں صرف درجنوں طالبعلم داخلہ لینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ طب کے شعبے سے منسلک ہونے والے انھی طالبعلموں کو بھی ہمیشہ کرب کے نظر کیا جاتا ہے اور ان کے راہ میں ہرممکن رکاوٹ حائل کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ ہو یا دیگر طالبعلموں کے تعلیمی تسلسل میں ہمیشہ ہی سے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی کے ساتھ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں طالبعلموں کو تعلیم جیسے بنیادی سہولت کی خاطر سڑکوں پر نکلنا اور انھی سڑکوں پر انتظامیہ کی جانب سے ان کی تذلیل جاتی ہے۔

بلوچستان کے طالبعلم جہاں بنیادی سہولیات کے لیے احتجاج جیسا جمہوری طرز طریقہ اختیار کرتے ہیں تو انتظامیہ اور حکومتی نمائندوں کی جانب سے طلبا مسائل کی شنوائی کے برعکس ان پر طاقت اور تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے۔

آن لائن کلاسز کا مسلۂ ہو یا دیگر طالبعلموں کو ہمیشہ ہی جمہوری طرز طریقہ اختیار کرنے پر انتظامیہ کی جانب سے زدوکوب، حراساں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے لیے گئے فیصلوں کے خلاف جہاں ملک بھر کے طالبعلم سراپا احتجاج ہیں وہیں بلوچستان کے طالبعلموں نے گزشتہ روز کمیشن کے فیصلوں اور انتظامی نااہلی کے خلاف کوئٹہ میں پرامن احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔ ملک کا تعلیمی نظام جہاں آئے روز فرسودہ شکل اختیار کر رہی ہے وہیں طالبعلموں کے تعلیمی تسلسل میں رکاوٹیں حائل کرنے کے لیے آئے روز نئی پالیسیوں کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے جہاں نیشنل لائسنسنگ امتحانات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تو تنظیم کی جانب سے مذکورہ پالیسی کے خلاف تشویش کا اظہار کیا گیااور پاکستان میڈیکل کمیشن سے اس فیصلے پر نظر ثانی اپیل کی گئی۔طلبا کے تحفظات کے باوجود پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے مذکورہ پالیسی پر عملدرآمد کا فیصلہ ہوا اور مختلف جامعات میں امتحانات کا آغاز کیا گیا۔اسی امتحانی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے گزشتہ روز بولان میڈیکل کالج میں بھی امتحان کا انعقاد کیا گیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں منعقد امتحان کے اکثر سوالات کا تعلق نہ تو طب سے تھا اور نہ ہی طب سے منسلک کسی بھی شعبے سے تھا جبکہ امتحانات کے نتائج میں بھی تسلسل کے ساتھ ردوبدل کی گئی۔اسی مسلئے کو لے کر طالبعلموں نے کوئٹہ میں پرامن احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا جس پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کی گئی اور طالبعلموں کو تشددکا نشانہ بناتے ہوئے انھیں سلاخوں کے نظر کیا گیا۔ پرامن طالبعلموں پر گزشتہ روز ہونے والے جبر کی کڑیاں گزشتہ دہائی سے تسلسل کے ساتھ طالبعلموں پر ہونے والے جبر سے ملتی ہیں اور اس عمل میں مسلسل تیزی لائی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بطور بلوچ طلبا تنظیم طالبعلموں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرتی آئی ہے۔ تنظیم کی جانب سے طالبعلموں کی حمایت اور طالبعلموں پر بے جا تشدد کے خلاف کوئٹہ سمیت اوتھل اور کراچی میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور حکومت سے جلداز جلد طلبا مسائل حل کرنے کی اپیل کی ہے۔

ہم صوبائی اور وفاقی حکومت سمیت تمام متعلقہ اداروں کے عہدیداران سے درخواست کرتے ہیں کہ طلبا مسائل کے حل کے لیے جلد از جلد عملی اقدامات کی جائیں۔ اس بیان کے توسط سے ہم طالبعلموں کو باور کراتے ہیں کہ تنظیم کسی بھی موڑ پر طالبعلمون کے شانہ بشانی کھڑی ہے اور مطالبات منظور نہ ہونے پر دیگر طلبا تنظیموں سے مشاورت کے بعد آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔