کتاب: چین آشنائی | شاہ محمد مری – تبصرہ: سمیع ساحل بلوچ

662

نام کتاب: چین آشنائی

مصنف: شاہ محمد مری
تعارف و تبصرہ: سمیع ساحل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پہلے پہل کتاب کا نام دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ “چَین آشنائی” ہے جو کوئی سائیکالوجی اور self-help سے متعلق بورنگ کتاب ہوگی۔ پھر آگے معلوم ہوا کہ یہ تو ملکِ چِین کی آشنائی ہے اور مزیدار سفرنامہ ہے۔

مشتاق احمد یوسفی سے منسوب ایک جملہ کچھ یوں ہے کہ “سفرنامہ جھوٹ بولنے کا مہذب طریقہ ہے”. اسلیئے میرا رجحان اس صنف کی طرف کم ہی رہا ہے۔ لیکن مری صاحب کا پچھلا سفرنامہ “بلوچ ساحل اور سمندر” چونکہ پہلے پڑھ چکا تھا جو انتہائی پسند آیا، لہذا یہ کتاب وہ بھی ایک وسیع تاریخ رکھنے والی اور پیچ و تاب کھانے والی ملک اور قوم کا تھا اسلیئے دلچسپی تو بڑھنی ہی تھی۔ چھٹ پٹے جملوں، حسین وادیوں اور شہروں کی لفظوں سے تصویر کشی، اور تاریخ چین کا ساتھ میں بیان ہونا، ایک حسین امتزاج کیساتھ قاری کو آگے پڑھنے کیلیے مجبور کر دیتا ہے۔

سولہا ابواب پر مشتمل یہ کتاب ایک بلوچ ماما کی ہے جو مشتاق احمد یوسفی اور پاکستان کے چند اور دانشوروں کیساتھ اس سفر پر نکل کر اپنی یاداشتیں ثبت کرتے جاتے ہیں۔

کتاب میں چین کی سیاہ تاریخ؛ افیون سے لے کر فیوڈل ازم، عورت کی بے حرمتی سے لے کر ان کی تحریکوں میں سرگرم کرداروں، انقلابی جدوجہد اور ان میں شامل لیڈروں کے بارے میں تفصیلی بحث موجود ہے۔

چین کے مقامات کی سیر کی روداد کے علاوہ چینی لٹریچر کے عظیم لکھاری لوہسون، ماو، باجین، ماوڈون اور کومورو کے مختصر حالات زندگی بھی بیان کیئے گئے ہیں۔ اس کے علاؤہ چینی ثقافت اور اسکی ارتقاء، چینی مہمان نوازی اور مکسڈ اکانومی پہ بھی مزیدار تبصرے موجود ہیں۔

وہاں کی ترقی کی روداد پڑھ کر مجھے اپنا بلوچستان اور اسکی پسماندگی ہر صفحے پر نظر آتا رہا جو نہ صرف سرداروں وڈیروں بلکہ سرمایہ دار ریاست کی بھی مرہون منت ہے۔ یہاں چین کا 62 بلین ڈالرز کا سرمایہ جو سی پیک (گوادر) پہ لگا ہوا ہے، وہ ابھی تک گوادر کے پیاسے شہریوں کو پانی تک مہیا نہیں کر پایا۔ اُدھر چین کا ہر شھر، ہر گاؤں اور ہر باسی اکیسویں صدی کی ہر سہولت سے آراستہ ہے۔ یہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کیلئے لوگ سڑکوں پہ، وہاں روزانہ سڑکوں پہ ہزاروں گاڑیوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے جو وہاں کے سماجی طبقوں کی بہتری کی نشانی ہے۔ کتنا بڑا اور واضح فرق ہے، چینیوں کے اپنے ملک کی (مخلص) ترقی میں اور ایک (کالونائزڈ) علاقے کی ترقی میں۔

مصنف کا چین کے دوسرے ممالک میں استحصالی داخلوں پر بھی کوئی تبصرہ موجود نہیں۔ حالانکہ اس سفر نامے کے لکھنے سے پہلے چین خصوصاً بلوچستان میں 1995 میں داخل ہوکر ہمارے سونے (سائندک گولڈ پراجیکٹ) پر کام کر رہا تھا جہاں مزدوروں کے حالات زندگی کافی قابل رحم تھی (اور ابھی تک ہے).

چین کی تاریخ اور کمیونسٹ نظام کے علاوہ ماو زے تنگ کو مصنف نے زیادہ ہی glorify اور exaggerate کیا ہے۔ جو ایک حد تک جانبدار اور سوشلزم کو انتہائی سپورٹ کرنے والے شخص کی عکاسی کرتا ہے۔ بہرحال یہ ہر مصنف کا اپنا طرز تحریر ہے کہ وہ کس نقطہء نظر سے چیزیں بیان کرنا اور لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں