پروم پنجگور کی کوکھ سے جنم لینے والا سربلند
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کے اس مختصر سفر میں کچھ ایسی یادیں ہوتی ہیں، جنہیں انسان کبھی بھی بھول نہیں سکتا، شاید ان لمحات میں انسان فکری طور پر اور مظبوط ہو پایا ہے۔ آزادی کے اس سفر میں کئی ایسے مہربان دوستوں کے ساتھ بھی ہمیں کچھ وقت گذارنے کو ملے ہیں، جن سے ہمیں کافی چیزیں سیکھنے کو ملی ہے، ان دوستوں کی قربانیوں کی وجہ سے شاید آج مزید ایمانداری کے ساتھ اپنے کاموں کو سرانجام دے پارہے ہیں۔
انسان اگر ذہنی طور پر کسی کام یا کسی مقصد کے لیے تیار ہو تو اس کے حوصلے ہمیشہ ہمیشہ بلند رہتے ہیں، کوئی بھی فرد اس کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتا، خوف کا وجود اس کے اردگرد بالکل بھی نہیں ہوتا اور وہ شعور کی اس انتہاء پر ہوتا ہے، جہاں خوف کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں ہوتا
وطن کے عشق میں مگن عاشقوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا وہ تو بس اپنے دشمن کے طاق میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب کہاں کیسے انہیں نیست کرنے کا موقع ملے تب ہی وطن کا یہ سپوت ، “سربلند” گوادر کا رخ کرتے ہوئے اپنے محاذ کا انتخاب کرکے اپنے آخری سانسوں تک اپنے قوم اپنے لوگوں کے خاطر لڑتا رہا اور شعور بانٹتا رہا. محبت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ جو شخص اپنے زندگی کو قومی ضروریات کے سامنے رکھ کر اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ کر شعوری طور پر اپنے موت کا انتخاب کر لیتا ہے ۔
یقیناً سربلند کے حوصلے دامن چلتن سے بھی بلند ہونگے ، جب وہ دشمن کے انتظار میں بے چینی سے کھڑا ہوگا اس چیز کا اندازہ بھی اس عمل سے لگایا جاسکتا ہے کہ سربلند دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لیے کتنا بے تاب ہوگا سربلند بلکل دنیا کے عیاشیوں کو ایک طرف رکھ کر آخری وقت تک اپنے سانسوں کو قومی امانت سمجھ کر شعوری طور پر اپنے کیے ہوئے قول پر ڈٹا رہا۔
سربلند جان نے جب بھی یہ فیصلہ کیا ہوگا تب وہ شعور کے انتہا تک پہنچا ہوگا کہ اپنے موت کا انتخاب خود کرکے کب کیا کیسے دشمن پر بہادری اور حوصلے کے ساتھ ٹوٹ پڑنا ہے یہاں اس چیز کا اندازہ لگایا جاسکتا کہ سربلند اپنے دل میں اپنے پاک وطن پر قابض ناپاک دشمن کے لیے کتنا نفرت رکھتا ہوگا ۔
سربلند جسمانی طور پر ہم سے جدا ضرور ہوا ، لیکن اس کی ہنسی، اس کی لگن ، مخلصی، ایمانداری محنت اور قربانی ہمیں کبھی بھی تھکنے نہ دے گا ، نہ ہمیں رکنے دے گا، اور سب سے بڑھ کر سربلند کی سربلندی و سرفروشی ہمیں جھکنے نہیں دے گا”
پنجگور کے کوکھ سے جنم لینے والا فرزند سربلند جان نے اپنے پاک خون سے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دھرتی بانجھ نہیں بلکہ سربلند جان نے یہ پیغام بھی دیا کہ فدائی ریحان کے فکر اور نظریے نے ایسے کئی سربلند جنم دیئے ہیں جو کبھی بھی کہیں بھی کسی وقت پر بھی دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار اور اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
آج بحیثیت ایک جہد کار ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہمیں شہداء کے نقش قدم پر ہمگام ہوکر، ان کے فلسفے کو زندہ رکھتے ہوئے ان دوستوں کے مشن کو پایا تکمیل تک پہنچانا ہے اور اس عزم کا اعادہ بھی کرنا ہوگا کہ ہمیں شہداء کے سامنے سرخرو ہونا ہے کیونکہ آج نہ صرف شہداء کے امیدوں کو پورا کرنا ہوگا بلکہ اپنے سرزمین مادر وطن بلوچستان کے لیے آخری سانس اور آخری گولی تک لڑنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں