بلوچستان اس وقت شدید تعلیمی بحران کا شکار ہے۔تعلیمی ادارے نہ صرف معاشی طور پر دیوالیہ پن کے شکار ہوچکے ہیں بلکہ اداروں میں کرپشن،اقرباء پروری اور سفارشی کلچر نے پنجے گھاڑ کر تعلیمی نظام کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے – ان خیالات کا اظہار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے آج کوئٹہ پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے کیا۔
انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی آج کے اس پریس کانفرنس کا مقصد ایک انتہائی اہم مسئلے کی جانب میڈیا کا توجہ مبزول کرانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دس دنوں سے بلوچستان کے میڈیکل انٹری ٹیسٹ دینے والے طالبعلم آن لائن ٹیسٹ میں بے ضابطگیوں کے خلاف مسلسل احتجاج کررہے ہیں لیکن حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کرکے طلبہ کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہے جو کہ انتہائی ناروا اور قابل مذمت ہے۔ رواں ہفتہ ہاکی گراؤنڈ چوک میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے والے میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے پرامن جدوجہد کرنے والے طالبعلموں پر کوئٹہ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور بدترین تشدد کا بنایا گیا اور احتجاج میں شامل طلبہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے تھانہ منتقل کردیا گیا۔ حکومت بلوچستان کی اس آمرانہ رویے نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ تعلیمی مسائل پر کسی بھی طرح سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ یہاں پرامن جدوجہد کرنے والے طالبعلموں کی آواز کو زبردستی دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تشدد اور گرفتاری کے باجود بلوچستان کے باشعور طالبعلموں نے بلند حوصلوں کے ساتھ اپنے مطالبات کے حق میں پرامن جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کراتے رہے۔ دس دن گزرنے کے باجود صوبائی یا وفاقی حکومت کی جانب سے نہ اس مسئلے کا نوٹس لیا گیا اور نہ ہی طلبہ کے مسائل کو سننے کیلئے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت نمائندہ طلبہ تنظیم بی ایس او اور بساک نے روز اول سے بلوچ طالبعلموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر نہ صرف انکی آواز بنے رہے بلکہ اس معاملے تنظیمی سطح پر بھی گفت و شنید ہوتی رہی۔دونوں طلبہ تنظیموں کی جانب سے مذکورہ مسلئے کو لے کر گزشتہ روز کوئٹہ میں مرکزی سطح پر اجلاس بلایا گیا۔ اجلاس میں طویل گفت و شنید اور مباحثے کے بعد دونوں تنظیموں کے ذمہ داران نے طلبہ کی توانا آواز بننے اور پاکستان میڈیکل کمیشن کی بے ضابطگیوں کے خلاف پرامن احتجاجوں کے سلسلے کو وسعت دینے کیلئے مشترکہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ بساک اور بی ایس او بلوچستان کی سب سے بڑی طلبہ تنظیمیں ہونے کے ناطے ہمیشہ طلبہ کی تعلیمی حقوق کیلئے جدوجہدکرتے رہے ہیں اور ماضی میں بھی دونوں تنظیموں نے اتفاق اور اتحاد سے کام لیکر بطور الائنس کام کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل کی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اس مسئلے پر بھی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی یکجاہ ہوکر جدوجہدکرینگے۔ اس الائنس میں دونوں طلبہ تنظیمیں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے طلبہ کی آواز بن کر ہرطرح کے سیاسی و جمہوری راستہ اپنائینگے۔
بساک اور بی ایس او کے مشترکہ الائنس کی جانب سے 20 ستمبر کو شال میں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کے طلبہ کے مطالبات کے حق میں ایک گرینڈ ریلی کا انعقاد کیا جائے گا جس میں حکومت کو درجہ ذیل مطالبات کی منظوری کیلئے زور دیا جائے گا۔
1۔پاکستان میڈیکل کمیشن کے زیرانتظام آن لائن امتحانات کو فوراً منسوخ کیا جائے اور فیزیکل ٹیسٹ لیا جائے۔
2۔ انٹری ٹیسٹ پاسنگ مارکس کرائٹیریا پچاس فیصد رکھا جائے۔
3۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد چونکہ تمام صوبے اپنے معاملات میں خودمختار ہیں آئینی اعتبار سے بلوچستان کے میڈکل کالجز اپنے داخلہ ٹیسٹ خود منعقد کرائیں۔
4۔ حالیہ ٹیسٹ میں متعلقہ ادارے کی جانب سے کی گئی غفلت کا نوٹس لیکر اس کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔
طلبہ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بساک اور بی ایس او کے مشترکہ الائنس کے زیراہتمام شال میں ہونے والے مظاہرے اور ریلی کے بعد اگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے طلبہ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو بہت جلد بلوچستان سمیت دیگر بلوچ اکثریت علاقوں میں مشترکہ مظاہروں کی کال دی جائیگی۔