ایران کا کہنا ہے کہ افغانستان کے وادی پنجشیر پر حملے میں پاکستانی آئی ایس آئی کا سربراہ ملوث ہے
تہران ٹائمز رپورٹ کے مطابق ایرانی ایم پی کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ پنجشیر کے معاملے اور طالبان کے کابینہ کی تشکیل میں ملوث ہے۔
انہوں مزید کہا کہ ایران ہرگز یہ اجازت نہیں دے گا کہ پاکستان افغانستان میں امریکہ کا کردار ادا کرے۔
Iranian MP: Pakistan's ISI head is involved in #PanjshirValley offensive as well as the formation of the Taliban cabinet. pic.twitter.com/5FpUcQdLN9
— Tehran Times (@TehranTimes79) September 12, 2021
خیال رہے کہ اس سے قبل ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اپنے بیان میں پنجشیر میں مزاحمتی محاذ کے خلاف طالبان کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی ’غیرملکی مداخلت‘ کی تحقیقات کر رہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ایران تمام تر غیرملکی مداخلت کی مذمت کرتا ہے۔‘
’ہم اپنے دوستوں اور افغانستان میں کسی اور نیت سے داخل ہونے کی سٹریٹجک غلطی کرنے والوں کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ افغانستان وہ ملک نہیں جو دشمن یا حملہ آوروں کو اپنی زمین پر قبول کرے۔‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پنج شیر سے آنے والی خبریں صحیح معنوں میں پریشان کن ہیں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعید خطیب زادے نے طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کو بھی اپنی ذمہ داریاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق پوری کرنا ہوں گی۔‘
واضح رہے کہ طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایران نے طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے وادی پنجشیر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے تاہم قومی مزاحمتی فرنٹ نے طالبان کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی فورسز علاقے میں موجود ہیں۔
پیر کو کابل میں پریس کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پنجشیر کی وادی کو ’مکمل فتح‘ کر لیا گیا ہے اور اس دوران شہریوں کی ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔
تاہم دوسری جانب گذشتہ دنوں افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح کے بھائی روح اللہ صالح طالبان کے ہاتھوں مارے گئے اور اہل خانہ نے الزام لگایا کہ طالبان روح اللہ کی تدفین کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ۔
دوسری جانب طالبان نے ان کے اہلخانہ کے دعوے کی تردید کی اور کہا کہ روح اللہ صالح کو پنجشیر کی لڑائی کے دوران ہلاک کیا گیا۔
پنجشیر سے اطلاعات ہیں کہ طالبان کے قبضہ کے بعد علاقہ مکینوں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی میں شروع کی ہے اوع اب تک سینکڑوں خاندان دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئیں ہیں ۔
طالبان مخالف اتحاد این آر ایف نے پنجشیر پر طالبان کے قبضے کے باوجود کہا کہ طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق امر اللہ صالح اس وقت اپنے علاقے میں موجود نہیں ہے اور یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔
افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے اب تک کی اپنی آخری ٹویٹ تین ستمبر کو کی تھی جس میں انہوں نے وادی سے نکلنے کی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ وہ اپنی مٹی کے ساتھ اور اپنی مٹی کے لیے اور اس کی عظمت کی حفاظت کے لیے وہاں موجود ہیں۔
تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں دعوٰی کیا کہ امراللہ صالح تاجکستان فرار ہو گئے۔ تاحال اس دعوے کی تردید یا تصدیق آزاد زرائع سے نہیں ہوسکی ۔