مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پنجشیر میں آپریشن شروع کیا گیا – ذبیح اللہ

736

اب تک ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے افغان صوبے پنجشیر کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے طالبان اور قومی مزاحمتی فرنٹ افغانستان کے درمیان لڑائی کا باضابطہ آغاز ہوگیا ہے-

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی مخالفین کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ احمد مسعود کی سربراہی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والے قومی مزاحمتی فرنٹ افغانستان (این آر ایف اے) کے ترجمان نے بھی طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’مقامی مسلح گروپ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہم نے ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے جنگجو پنجشیر میں داخل ہوگئے ہیں اور انہوں نے بعض علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

دوسری جانب این آر ایف اے کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے پاس پنجشیر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کا کنٹرول ہے، ضلع شتل میں طالبان کا حملہ پسپا کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’دشمن (طالبان) نے صوبہ پروان کے قصبے جبل سراج سے شتل میں داخل ہونے کی متعدد کوششیں کیں اور ہر بار انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ روز طالبان مذاکراتی وفد کے رکن امیر خان متقی نے وادی پنجشیر کے شہریوں کیلئے ایک آڈیو پیغام جاری کیا تھا۔

پیغام میں کہا گیا کہ پنجشیر کا معاملہ حل کرنے کیلئے مذاکرات کیےگئے لیکن مذاکرات میں تاحال پیشرفت نہیں ہوسکی کیونکہ مزاحمتی محاذ کے افراد لڑنا چاہتے ہیں۔

امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ طالبان پنجشیر معاملے کواب بھی پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں اور وادی اب طالبان جنگجوؤں کے محاصرے میں ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز بھی قومی مزاحمتی فورس نے دعویٰ کیا تھاکہ جھڑپوں میں کم از کم 30 طالبان جنگجو مارے گئے اور 15 زخمی ہوئے۔

سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود شاہ وادی پنجشیر میں مزاحتمی تحریک کی قیادت کررہے ہیں جبکہ انکے ہمراہ افغان نائب صدر امر اللہ صالح و سابقہ افغان SOF کے اہلکار بھی شامل ہیں –

یاد رہے پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔

طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہوسکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہوسکتی ہے۔

ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔

پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے 90 کی دہائی میں وادی کا کامیاب دفاع کیا تھا جبکہ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی اس وادی میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور متعدد حملوں کے باوجود ہر دفعہ یہ وادی ناقابل تسخیر رہی۔