شعور کی انتہا سلمان نوتک – دیدگ نُتکانی

333

شعور کی انتہا سلمان نوتک

تحریر: دیدگ نُتکانی

دی بلوچستان پوسٹ

‏سچ قبول کرنا شعور کی ابتدا جبکہ سچ کیلئے جدوجہد کرنا شعور کی انتہا ہے. عام الفاظ میں دیکھیں تو شعور اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو کہا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے Consciousness کہتے ہیں۔ طب و نفسیات میں اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ شعور اصل میں ذہن کی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ذاتیت, فہم الذاتی ، دانائی اور آگاہی کی خصوصیات پائی جاتی ہوں اور ذاتی و ماحولی حالتوں میں ایک ربط موجود ہو۔

دنیا میں کچھ لوگ ایسے گزرے ہیں جو عقل و فہم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد شعور کی اعلی وسعتوں کا سفر کرتے ہیں, وہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے انکی سوچ اور نظریات سے بہت آگے کا سوچتے ہیں اور یوں کہنا بھی شائد غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنے دَور کے ساتھ ساتھ آنے والے دور کی بھی خبر رکھتے ہیں لیکن چونکہ عام لوگ انکی فہم,دانش اور شعور سے واقفیت نہیں رکھتے اس لیئے طرح طرح کے ان پر فتوے,زبان درازیاں شدت پسند اور کافر و گمراہ جیسے القابات سے نوازتے ہیں.

بلوچ قومی تحریک جس میں جُرأت و استقلال, بہادری اور غیرت کی لازوال کہانیاں ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک قربانی اور ولولے سے لیس واقعات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے, جہاں شہیدوں اور اسیروں کی کہانیاں ایک عام شخص کے ذہن کو دنگ کر دیتی ہیں اور انسان ان واقعات کو پڑھ کرحیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ایسے جوان اس مٹی نے پیدا کیئے ہیں کہ جو اپنی مثال آپ ہیں. انہی علم و شعور سے مزین قافلے میں ایک شخص ایسا بھی گزرا ہے جو تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خود کو امر کر گیا ہے, بات اگر علم کی ہو, بات شعور کی ہو, بات قلم کی ہو, بندوق کی یا فیصلہ سازی کی, وہ ہر حوالے سے مکمل تھا. یقیناً تحریر کے عنوان سے آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ مجھ جیسا عاجز شخص آج ایک ایسے موتی کے بارے قلم آزمائی کر رہا ہے جسے دنیا سلمان حمل عرف ‘نوتک’ کے نام سے جانتی ہے.

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جُہد آزادی کے اس لازوال سفر میں ہزاروں جوانوں کی بے مثال قربانیاں ہیں جنکو ہم ساری عمر لکھتے رہیں تب بھی ختم نہیں ہونگی لیکن پھر بھی کچھ سنگت قدرتی طور پر ہمارے ذہن پہ نقش ہوجاتے ہیں اسے فطرتی عمل کا نام دیں یا کچھ اور لیکن سنگت نوتک ان میں ایک ہیں جن کی شخصیت نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا.

ایسا کوئی لمحہ نہیں جب سنگت کی شاعری زبان پہ نہ ہو, سوچتا ہوں وہ کونسا لمحہ ہوگا جب سنگت نے لکھا ہوگا.
“شورِ دل بند گواہ اے ما وتی سر داتہ”
آخر کن احساسات سے گزر رہا ہوگا جب اپنی ‘کامریڈیں بانک’ کو لکھ رہا ہوگا.
“منا پھل کن کہ زندگی ءَ تراچہ پیسر
زمین ءِ واستا من ساہ داتگ وتن نہ داتگ”

ریحان لیجنڈ سے لے کر نوتک جان اور پھر شہید سربلند نے اپنے قول و فعل سے ہمیں یہی پیغام دیا ہے کہ کوئی فلسفہ نہیں عشق کا جہاں سر جھکے وہیں سر جھکا, جہاں سر کٹے وہیں سر کٹا,جہاں جبر ہو وہاں المِ حق بن جا,ایک بار پھر ‘نعرہ منصور’ بلند کر, دوبارہ ‘سقراط’ کے فلسفے کو زندہ کر, یا اس بائیس سالہ کُردش نوجوان لڑکی “آرن مِرکان” سے کچھ سیکھ جس نےجزبہء فدویت میں ایک نئی روح پھونکی اور مادرِ وطن پر قربان ہوگئی.

ایسا کبھی دیکھنے کو نہیں ملا کہ شعور کی مسافتیں طے کرنے والا گوریلا بندوق تو سنبھالے ہوئے ہو لیکن قلم, علم و ادب سے قربت نہ رکھتا ہو کیونکہ آپکو جب قلم اور بندوق دونوں پہ گرفت حاصل ہوجائے تو آپ سنگت سلمان کی صورت میں نکھر کر سامنے آتے ہیں اور یہی خوبی نوتک جان کے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. اردو ادب میں ان کا قد بلند کرنے کیلئے انکے مضامین ہی کافی ہیں جس میں کبھی وہ ‘ بلوچ قومی سوال کا بہتر جواب’ کے ذریعے قوم کو پیغام دے رہے ہیں تو کبھی وہ تحریک سے جڑے لوگوں کی کمزوریوں پہ لکھتے ہیں ‘ہم کس طرف جا رہے ہیں’. نیز ڈاکٹر منان سے لے کر اسد جان تک اور پھر استاد اسلم کے عہد سے لے کر براس اور مجید برگیڈ تک کا سفر وہ اپنے قلم سے ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں انسان چند لمحوں کیلئے زماں و مکاں سے غافل ہوجاتا ہے. اسی طرح کم و بیش 23 آرٹیکلز سنگت بلوچ قومی تحریک سے جُڑے مسائل, غلط فہمیوں انکے حل کے بارے میں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے سے حوالے سے لکھتے ہیں.

کچھ دن پہلے سنگت کی بلوچی زبان میں لکھی شاعری کی کتاب ‘ہون ءِ بھار’ پبلش ہوئی. سنگت کے تخیل, دور اندیشی وطن کیلئے بے لوث عقیدت دیکھ کر یقین ہوگیا کہ شعور کے اس مقام پہ پہنچنے کیلئے بہت مطالعہ, علم, جزبہ اور وتن سے عقیدت جنون کی حد تک ہو پھر انسان شہید سلمان حمل بنتا ہے اور پھر فدا ہونے کے سارے راستے آپ کیلئے کھل جاتے ہیں, پھر آپ وہ مقصد پا لیتے ہیں جس کے سامنے زندگی موت صرف چند الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں. سنگت سلمان کا بیوی کے نام آخری خط کا کچھ حصہ میں یہاں شامل کرنا چاہوں گا جو قوم کیلئے آگہی سے لیس پیغام ہے.

” زیتون بیگم،

میرے مادہُ منویہ کی سیال رطوبتوں میں کلبلاتے خوش قسمت ترین سپرم اور تمھارے ایگ کے خضدار کی جنوبی پہاڑی کے عقب میں چاند کی پچھلے دسمبر کی سرد بارہویں رات میں ملن کے بعد ٹھہرنے والے حمل کی قسم تم سے دور ایسی دنیا میں جانے کا خیال بھی سوہان روح ہے جہاں تمھاری زلفوں کی خوشبو کی جگہ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی عملی طور پر عالم برزخ کو قبر کی ہی ڈی کمپوزڈ سٹیٹ قرار دیتی ہے۔یہ جو پنجاب کے میدانی علاقوں کے نیم پڑھے لکھے مسلمان ہماری گیس پر کھانا پکا کر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے پراپیگینڈے کے زیر اثر جب ہم پر ہی لعن طعن کرتے ہیں تو بے ساختہ خیال آتا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو. خود اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں کہ راجہ داہر کی قید اور سپین میں بادشاہ کی ہوس سے بچنے کے لیے لڑکیوں نے جب مسلم جنگجووُں کو زوم پہ کال کی تو وہ گھوڑے دوڑاتے ان کو آزاد کروانے آ گئے حالانکہ یہ سب مسلم امپیرایلزم کی جسٹیفیکیشنز تھیں.
ڈاکٹر شازیہ کا ریپ کرنیوالا کیپٹن حماد آج کل کرنل بن کر حسن ابدال کالج میں فرسٹ ائیر کے بچوں کو اسلامیات لازمی میں عورتوں کے حقوق پڑھاتا ہے تو اک آگ سی ابلتی ہے سینے میں رہ رہ کہ نہ پوچھ دل پر اپنے مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے. ہماری بہنیں مائیں بیٹیاں سڑکوں پہ دہائیاں دیتی رہیں کہ ہمارے پیارے آزاد کرو اور یہ لوگ ہمارے حق میں میں آواز اٹھانے والے محمد حنیف کو حبیب یونیورسٹی کراچی سے نکلوانے میں سرگرداں رہے۔ کاش یہ پاکستانی سمجھ سکتے کہ کیوں انسان اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور روزنبرگز کی طرح تاریک راہوں میں مارے جانے پہ فخر کرتا ہے لیکن یہ آنکھوں والے اندھے،زبان والے گونگے اور کانوں والے بہرے ہیں۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا بیٹا ہوا تو اس کا نام ارمان سلمان اور بیٹی ہوئی تو اس کا نام مگن حیات رکھنا اب تمھیں زندگی کے صحرا سے ہاجرہ بن کر چشمہ نکالنے کے لیے ایڑیاں رگڑنی ہونگی۔
فقط تمھارا مجرم
سلمان حمل “

سنگت کے اس آخری خط میں ہمیں یہی سیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح ایک کوہ زاد اپنے گھر بار, رشتے خاندان کو اپنے وطن پہ قربان کرتا ہے, یہ ان لوگوں کیلئے پیغام ہے جو کنٹرولڈ میڈیا, جھوٹ پر مبنی پاکستانی تعلیمی نظام اور من گھڑت کہانیوں سے متاثر ہوکر بلوچ تحریک سے جڑے باشعور افراد کو گمراہ کم علم اور جزباتی کہتے ہیں بغیر جانتے ہوئے کہ انکے اندر شعور کا ایک طوفان ہوتا ہے جو کئی سالوں کی فکر کے بعد آپکو یہ باور کرواتا ہے کہ عقل و شعور کا کوئی بھی فیصلہ ہو اسکی عزت کرنی چاہیئے لیکن اگر وہ فیصلہ جزبہء فدویت(خود کو قربان) کرنے کے بارے میں ہو تو وہ فیصلہ ہزاروں کیلئے مشعلِ راہ بنتا ہے. اور آخر میں سنگت بُرزکوہی کے لفظوں کا سہارا لیتے ہوئے کہوں گا کہ
“شہیدوں پر لکھی ہر ایک تحریر نامکمل ہے، یہ بھی ایک اور نامکمل تحریر ہے”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں