شبیر رخشانی – ایک سماجی ورکر
تحریر: سلطان فرید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ لوگ معاشرے میں رہ کر خود کو معاشرے سے بدل لیتے ہیں۔ معاشرے میں چند ہی ایسے افراد ہوتے ہیں جو معاشرے میں ہونے والے بدنظمی،پسماندگی کے متعلق سوچتے ہیں اور ان سے نمٹنے کیلئے اپنا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔ معاشرے میں سیشنز اور نئے نئے تخلیق سامنے لانے کیلئے جدو جہد کرتے ہیں اورپورے معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ہی لوگوں میں شبیر رخشانی کا شمار ہوتا ہے. شبیر رخشانی بلوچستان کے انتہائی پسماندہ ضلع آواران کے تحصیل جھاو سے تعلق رکھتے ہیں۔ آواران کے اس سپوت نے جب اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد اپنے علاقے کا چکر لگایا تو اپنے علاقے کے تباہ شدہ ماحول کو دیکھ کر اس کے ذہن نے سوال اٹھانا شروع کیا توانہوں نے تباہ حال معاشرے کی بہتری کیلئے جہد و جہد شروع کی۔
آپ نے اکتوبر 2019 کو اپنے مہم “بلوچستان ایجوکیشن سسٹم” کا آغاز اپنے علاقے آواران سے شروع کرکے اسے پورے بلوچستان تک پہنچا دیااس مہم کا مقصد علاقے میں تعلیمی پسماندگی اسکولوں کی بندش اور غیر حاضر اساتذہ کے نام دنیا کے سامنے لانا تھا اور ان خامیوں کو دور کرنا تھا جو اس تباہ شدہ ماحول کو پروان چڑھانے کا ذمہ دار تھے _ علاقے میں تعلیمی پسماندگی بڑھ چکی تھی، کئی بچے تعلیم جیسے زیور سے محروم تھے جس نے شبیر رخشانی کو سوچنے پر مجبور کردیا
تخت شندی کے خلاف آواز اٹھانے کے نقصانات کے متعلق آگاہ اس شخص شبیر رخشانی نے پھر بھی پیچھے ہٹنے کو گوارا نہیں سمجھا۔ آواران سمیت پورے بلوچستان کے بند اسکولوں ،غیر حاضر اساتذہ اور بد نظمی کی نشاندہی کرنا شروع کردی۔ سفر کا آغاز اپنے قصبے عبدالستار گوٹھ جھاؤ سے کیا اور اس کو پورے آواران تک پہنچا دیا _ اس سفر میں آپ کو اپنی سرکاری نوکری گنوانی پڑی اور دھمکی سہنی پڑی لیکن پھر بھی اپنے اس کام میں وہ آخر تک پختہ رہے۔
اپنے اس مہم کو پروان چڑھانے کیلئے سوشل میڈیا، مختلف اخباروں اور بی بی س (BBC) جیسی نامور نیوز چینل کا سہارا لینا پڑا۔ بند اسکولوں اور غیر حاضر اساتذہ کا خبر BBC پر چلی جس نے سب کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ بزرگ فرماتے ہیں ،بلوچستان میں جو سر زیادہ اونچا ہوجائے ،وہ سر نہیں رہتا۔
آپ کو اپنے سفر کے دوران مار بھی کھانی پڑی _ اپنے وطن کے بند اسکولوں کو کھلوانے ،بگھوڑے اساتذہ کو سکول پہنچانے،اسکولوں میں رنگ و تماشا کروانے ،کھیلوں کے میدان آباد کرنے کا تمنا لئے ایک میدان سنوارتے ہوئے ایک دن جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جھاؤ کے ایک اسکول کو رنگ کرنے میں مصروف عمل تھے تو اچانک کچھ ڈنڈار بردار لوگوں نے اس پر حملہ کردیا لیکن آپ پھر بھی کوہ چلتن کی سی مضبوطی سے کھڑے رہے اور اپنے محاذ پر ڈٹے رہے اپنے اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جہدو جہد جاری رکھی _ بقول عطاشاد
“بڑا کٹھن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو”
شبیر رخشانی اپنی کتاب ” آواران سے یاری “میں لکھتے ہیں کہ
” ہم سب خواب دیکھتے ہیں_ پھر ان خوابوں کی تکمیل میں جٹ جاتے ہیں _ کچھ خواب تکمیل پاتے ہیں تو بہت سارے ادھورے رہ جاتے ہیں ان خوابوں کے آگے بند باندھے جاتے ہیں _آدمی ان بندوں کو توڑنے میں جٹ جاتا ہے _آپ ایک بند توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توایک اور مضبوط بند آپ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے _ آپ مزاحمت کریں یا ہتھیار ڈال دیں یہ آپ ہی پر منحصر ہے”
اس مہم کے ذریعئے شبیر آواران کے 176 بند اسکولوں اور 210 غیر حاضر اساتذہ کی سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے۔ آواران جیسے چھوٹے اور پسماندہ ضلع میں 176 اسکولوں کی بندش کسی المیہ سے کم نہیں جوکہ ہماری بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہے_ ایک اسکول کے بند ہونے سے 100 سے ذیادہ بچے اور بچیوں کی زندگی پر اثرات پڑتی ہیں تو 176 اسکولوں کا بند ہونا کتنی زندگیوں کو تباہی کی طرف گامزن کرے گا؟ واضح رہے یہاں 35 سالوں سے “بزنجو خاندان” کی حکمرانی چلتی آرہی ہے۔ ترقیاتی کام خالی اخباروں کی سرخیوں میں آپ کو ملتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے_
چلتے چلتے جنوری 2020 کو آواران جیسے پسماندہ ضلع میں لٹریری فیسٹول کا میلہ سجا۔ یوں علاقے میں یہ پہلا پروقار اور کامیاب میلے کے انعقاد کا سہرا شبیر رخشانی اور اس کے دوستوں کو جاتا ہے _
کتب میلہ کے متعلق عابد میر صاحب اپنے اور شبیر رخشانی کی لکھی ہوئی کتاب “آواران کی یاری” میں لکھتے ہیں۔
“ہم نے پانچ چھ برس بلوچستان کے کئی شہروں میں بک اسٹال لگائے _خالی ہاتھ بھی آئے اور لاکھوں بھی کمائے ،مگر ایسا کبھی نہ ہوا کہ اسٹال سے پوری کی پوری کتابیں بک گئی ہوں _آواران نے ہمیں اس معاملے میں بھی حیران کرنا تھا _ آٹھ برسوں کے بک اسٹالی تجربے میں ہم نے پہلی بار دیکھا کہ اسٹال سے تمام کتابیں بکی ہوں اور واپس لے جانے کو کچھ نہ ہو،بلکہ پڑھنے والے کتابوں کی کم تعداد پہ گلہ مند ہوں۔ دو دہائیوں سے جہاں سے صرف خاک و خون کی خبریں آتی تھیں ،وہاں علم و ادب کا فن کا میلہ سجا تو ہر خلوص مند اہل وطن کھل اٹھا”
ہزار تکلیفوں اور رکاوٹوں کے باوجود شبیر رخشانی کا یہ کاروان کسی بھی جگہ پر نہیں رکا اور چلتا رہا_ شبیر رخشانی جیسے باہمت شخص اس مفاد پرست زمانے میں بہت ہی کم ملتے ہیں _شبیر اس وقت اپنے علاقے میں رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھانے میں مصروف عمل ہےاور حال ہی میں اسی علاقے میں طالبات کیلئے لائبریری کیلئے جہدوجہد کی شروعات کرچکے ہیں۔
آواران میں ہروقت نئے تخلیق کی پیداوار کیلئے وہ سرگرداں ہے_
امید ہے وہ اپنے اس سفر کو جاری رکھیں گے اور معاشرے میں بہتری کیلئے ان کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا_
شبیر رخشانی کی اس جہدوجہد کی مکمل کہانی آپ کو اس کی اور عابد میر کی لکھی ہوئی کتاب “آواران سے یاری” میں ملے گی_
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں