بلوچ طلباء رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ نے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے کچہری کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے طلباء کے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج طلباء کو یہاں پر اس طرح دیکھ کر تعجب اور افسوس نہیں ہو رہا کیونکہ حکومت بلوچستان اور ریاستی رویہ بلوچستان اور بلوچوں کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کا ہر ادارہ بلوچستان کے لوگوں کے استحصال میں شریک رہا ہے۔
ماہ رنگ نے کہا دنیا کے کسی بھی حصے میں آپ کسی بھی ریاست کو اپنے شہریوں کے ساتھ اس طرح کے رویے کے ساتھ پیش آتے ہوئے نہیں دیکھتے دنیا کے تمام حصوں میں ریاست کے اندر شہری اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے ہیں مگر انہیں اس طرح کوئی بھی ریاست ڈیل نہیں کر تا جس طرح پاکستان میں بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر بلوچستان سب سے یتیم صوبہ ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
انہوں نے کہا بلوچستان کے صوبائی وزراء بھی بلوچستان کے حقوق کی دفاع میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں،اگر وہ ریاست کے استحصال اور دیگر معاملات پر بات نہیں کر سکتے انھیں ان مسائل پر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے مگر بلوچستان کے تعلیمی معاملات پر بھی وہ چھپ بیٹھے ہوئے ہیں، بلوچستان کے طلباء کو جسمانی اور ذہنی اذیت سے دوچار کر دیا گیا ہے آج جو بچے یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں ہوگی اور یہ طلباء بلوچستان کے ان علاقوں سے آئے ہوئے ہیں جہاں تعلیم کیلئے ریاست نے انہیں کچھ نہیں دیا ہے بلوچستان کے زیادہ تر طلباء پرائمری تک تعلیم حاصل نہیں کر پاتے یہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے گنے چنے لوگ ہیں جو بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے یہاں پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان طلباء کو کوئٹہ یا شہروں کی طرف لانے میں اور تعلیم کی طرف راغب کرنے میں حکومت یا ریاست کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ خود اپنے بل بوتے پر آئے ہوئے ہیں تاکہ وہ قومی تعمیر میں کچھ کردار ادا کر سکیں مگر جب وہ یہاں پہنچ جاتے ہیں اور تعلیمی کیریئر کا آغاز کرتی ہیں تو انہیں میرٹ کی پامالی، ان کے امتحانات میں کرپشن اور جب وہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں احتجاج اور مظاہروں کا راستہ اپناتے ہیں تاکہ طلباء کو سخت ذہنی ازیت سے دوچار کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ طلباء جو چند روپیوں میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں اپنی تعلیم کو آگے لے جاتے ہیں انہیں تشدد کا نشانہ بناکر ریاست ان پر اس عمر میں واضح کر دینا چاہتی ہے کہ اس ریاست کے اندر مستقبل میں جاکر ان طلباء کا مقام کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ سڑکیں ہمشیہ طلباء رہنماؤں کیلئے شعور کا باعث بنی ہیں یہ وہی سڑکیں ہیں جہان سے کمبر چاکر کو ہتکھڑیاں پہنائی گئی ہیں یہ وہی سڑکیں ہیں جہاں زاکر مجید اور دیگر طلباء رہنماؤں کو چکڑا گیا جہاں سے وہ شعور اور علم کے راستے پر گامزن ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس خطے میں سب سے مزاحمتی زمین ہے جہاں ہر طرح کی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ہر مسئلے پر احتجاج کیوں ہوتی ہے کیونکہ بلوچستان کی ماؤں نے اپنے بچوں کو ناانصافی کے خلاف خاموش رہنا سیکھایا ہی نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب ریاستی جبر نے ہمیں مزاحمت کا درس دی ہے آج جو طلباء یہاں سے اٹھ کر جائیں گے یہ زندگی کے کسی بھی مقام پر پہنیں مگر یہ واقعات ان کے زہنوں میں ہمیشہ نقش رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طلباء پر لاٹھی چارج اور ان پر آنسو گیس کی شیلنگ اور دیگر تشدد میں پولیس نہیں بلکہ سرکار ملوث ہے کیونکہ پولیس کو آرڈر جاری کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو طلباء پر دھاوا بولنے کیلئے ان پولیس والوں کو آرڈر جاری کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ چند طلباء نہیں ہیں جو یہاں پر سڑکوں میں موجود ہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے خاندانو ں کے خواب جڑے ہوئے ہیں۔
ریاستی تعلیم سے بلوچستان کے طلباء کا یقین مکمل طور پر چھوٹ چکا ہے وہ اپنے بلبوتے پر پڑھ لکھ کر اپنے قوم کی تعمیر و ترقی کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ یہ طلباء کسی بھی طرح اس طرح کے غیر انسانی عمل سے روکنے والے نہیں ہیں انہوں نے پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔
بلوچستان کے طلباء کے ساتھ حکومتی اور حکومتی نمائندوں کا رویہ ہمیشہ افسوسناک اور قابل مذمت رہا ہے وزارت لینے سے پہلے وہ یہ تو دستحقط کرکے دیتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی پر وہ خاموش رہیں گے بلکہ اس میں ایندھن کا کردار بھی ادا کریں گے حکومت کے وزرا ء کو اپنے مذمتی بیانات کا سلسلہ ختم کر دینا چاہیے کیونکہ انہوں نے تعلیم کیلئے کچھ کردار اد انہیں کیا ہے بلوچستان میں لوگوں نے جتنی تعلیم حاصل کی ہے وہ اپنے خود کے بل بوتے پر کی ہے۔