حکام میڈیکل طلباء کے مسائل پر توجہ کی بجائے حکومت بچانے میں مصروف ہیں – طلباء

192

میڈیکل انٹری ٹیسٹ متاثرین طلباء نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام انتہاٸی زبوں حال ہے۔ جہاں سینکڑوں گھوسٹ اسکولز ہیں اور ہزاروں گھوسٹ اساتذہ ہیں۔ اگر کہیں اسکول کھلا ہے تو اساتذہ موجود نہیں اور اگر اساتذہ موجود ہیں تو بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں۔ لیکن ان سب مسائل کو جھیل لینے کے باوجود اگر بلوچستان کے کچھ طلبا آگے بڑھ بھی جاتے ہیں تو ان کے خلاف اور کٸی محاز کھول کر انکی ارمانوں جو کچلنے کی مسلسل کاوشیں کی جاتی ہیں اور انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کی واضح ترین موجودہ مثال سال 2021 کی میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں کی گٸی منظم بے ضابطگیاں ہیں۔ بلوچستان کے طلبا پچھلے کٸی برسوں سے مختلف معاملات پر مجبور ہو کر بار بار احتجاج کرتے اور پولیس اور کی بربریت کا شکار ہوتے نظر آٸے ہیں۔ چاہے وہ بلوچستان یونیورسٹی کا اسکینڈل ہو یا پھر بی ایم سی کا معاملہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس بار بھی ہم طلباء پچھلے 10 دنوں سے انٹری ٹیسٹ میں ہونے والے بے ضابطگیوں کے خلاف مسلسل احتجاج پر ہیں۔ ہم جو اپنا قیمتی وقت اور والدین کی جمع پونجی لگا کر میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی تیاری میں دن رات ایک کرتے آئے ہیں، اس کا صلہ ہمیں یہ دیا جاتا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت بے ضابطگیاں کرکے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اور ہمارے خواب چکنا چور کر دیے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کا مستقبل مسلسل روڈوں پر ٹھوکریں کھا رہا ہے اور حکام آپسی چپکلشوں اور مفادات میں اس حد تک مگن ہیں کہ ان طلباء کے مساٸل پر کوٸی توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ حکام اپنی حکومت بچانے میں مصروف ہیں اور اپوزیشن اپنی مفادات محفوظ کرنے کے لیے دن رات ایک کر چکا ہے۔

انہوں نے اپنے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ ہم پی ایم سی کی منعقد کردہ آنلائن ٹسٹ کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دوبارہ فزیکل ٹیسٹ منعقد کیا جائے۔ انٹری ٹیسٹ کے پاسنگ مارکس کو 50 فیصد رکھا جائے۔ بلوچستان/فاٹا کی مخصوص نشستیں جوکہ ختم کر دی گئی ہیں انہیں دوبارہ بحال کیا جائے یا پھر اسکے متبادل میں بلوچستان کے میڈیکل کالجز میں ہماری سیٹوں کو ڈبل کیا جائے۔ کوئٹہ پولیس کے جن اہلکاروں نے طلبہ کو زد و کوب کیا انہیں معطل کر کے انکے خلاف کاروائی کی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں کمک و تواناٸی دینے کی بجاٸے طلبہ تنظیموں کے نام پر چند پیداگیر جان بوجھ کر ہماری تحریک کو کمزور اور تقسیم کرنے کی دانستہ یا نا دانستہ طور پر مسلسل کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیشہ عین موقع پر پہنچ کر اپنی پروموشن اور گروہی نماٸش حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں جب کہ پس پردہ یہی لوگ احتجاج پر بیٹھے طلبا کو مسلسل ہراساں کرنے اور دھمکی دینے کا مرتکب بھی ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے 23 ستمبر کو ایک ”گرینڈ احتجاج“ کی کال دیتے ہیں اور عوام، وکلا، ٹیچرز ایسوسی ایشنز، تاجر برادری، ڈاکٹر حضرات، طلبا تنظیموں، مزدور یونینز اور دیگر علم دوست حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آٸیں اور اس گرینڈ احتجاج میں شامل ہوں اور بلوچستان کے مستقبل یعنی آن لاٸن انٹری ٹیسٹ کے متاثرہ طلبا کو ان کا حق دلانے میں نمایاں کردار ادا کریں۔