گذشتہ روز اقوام متحدہ کی کمیٹی آن انفورسڈ ڈساپیئیرنسسز (سی ای ڈی) کا 21 واں اجلاس جنیوا میں ہوا, جس میں کمیٹی کے ممبران شامل تھے اسکے علاوہ جبری گمشدکیوں کے متاثرین نے بھی آن لائن شرکت کی۔
ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس ” کے چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے اجلاس میں شرکت کرکے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی اور دوسرے متاثرین کی کہانی سنائی جس پر کمیٹی کی ممبر باربرہ کا کہنا تھا کہ ہم آپکی ہمت کی داد دیتے ہیں اور آپ کی جدوجہد کو سراہتے ہیں آپ کی ہمت اور طاقت سے بہت سے متاثرہ خاندانوں کو امید اور ہمت ملتی ہے ۔
آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیٹی کو پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے حالات و واقعات سے آگاہ کیا اور اسکے علاوہ سفارشات بھی پیش کیں جس پر کمیٹی کے چیئر پرسن کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی دی گئی سفارشات کو سراہتے ہیں اور ہم پاکستان میں جبری گمشدگی کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں میرے شوہر جبری طور گمشدہ ہو گئے جو فوج کے سربراہ بھی تھے۔ اس زمانے میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانا بے حد مشکل تھا۔
انکا کہنا تھا کہ جیسے ہی جدوجہد شروع ہوئی ، میں نے پارلیمنٹ ہاؤس ، سپریم کورٹ اور تمام اہم مقامات پر اپنے بچوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ احتجاج کیا۔ ہم نے اپنی تحریک کو “ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس ” کا نام دیا۔ ابتدائی طور پر ، گمشدگیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں تھیں ، نائن الیون کے بعد سے ، پاکستان بھر میں شہریوں کے گھروں پر اندھا دھند چھاپے مارے گئے ، جعلی مقابلوں میں یا ڈرون کے ذریعے لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ، لاپتہ کیا گیا اور یہاں تک کہ امریکہ کو بیچ دیا گیا۔
آمنہ مسعود جنجوعہ کا مزید کہنا تھا کہ میں وکیل نہیں تھی ، لیکن میں نے مسعود ، فیصل اور بالآخر سیکڑوں دیگر لاپتہ افراد کےکیس سپریم کورٹ میں لڑے۔ ان سالوں میں ، جبری گمشدہ ہونے والوں کے 2818 کیس ہمارے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان میں سے 1358 منظر عام پر آچکے ہیں ، جبکہ 77 حراست میں فوت ہو گئے۔ 2008 میں مجھے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یورپ اور امریکہ کے اسپیکنگ ٹور پر مدعو کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2014 میں ہم نے جبری گمشدگیوں کے خلاف ایشین فیڈریشن اگینسٹ انوالنٹری انفورسڈ ڈساپیئیرنسسز (AFAD) کے ساتھ الحاق کیا ، جس نے ہماری مہم اور بین الاقوامی طور پرہماری کارکردگی میں مدد کی۔ 2017 میں ، میں نے جنیوا میں 28 ویں پری یو پی آر سیشن میں شرکت کی ، 20 ممالک کے مستقل مشنوں سے ملاقات کی۔ اس کے نتیجے میں 13 ریاستوں نے پاکستان کو کنونشن کی توثیق کی سفارش کی۔
آمنہ مسعود جنجوعہ نے اجلاس کے اختتام پر اپنی حکومت اور کمیٹی آن انفورسڈ ڈساپیئیرنسسز (سے ای ڈی) سے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں کنونشن کی توثیق کی جائے۔ ایسے تاریک سفراور انصاف کی عدم موجودگی میں، WGEID اور CED جیسے بین الاقوامی فورمز متاثرین اور انسانی حقوق کے محافظوں کے لیے ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔