تو کُربان مہ بو، من پہ شُما کُربان – برزکوہی

1791

تو کُربان مہ بو، من پہ شُما کُربان

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

“شام کے چھ بجکر پینتالیس منٹ ہوچکے ہیں، پورے سات بجے دشمن پہنچنے والا ہے اور اب مزید پانچ منٹ بعد میں آپ دوستوں کے ہمراہی جسمانی حوالے سے نہیں کرسکتا، میں اب ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خاک وطن بننے کیلئے تیار ہوں۔” بحربلوچ کی بلند لہروں میں سے دشمن کو غرق آب کرنے کو تیار ایک لہر کے یہ آخری پیغامات تھے۔ یہ بلند لہر محض گرم پانی کا ایک امڈ نہیں بلکہ خون کے جوار بھاٹے سے اٹھنے والا ایک طوفان تھا، جس نے تاریخ کے پنوں میں سربلند ہوکر بلوچ زِر کو حمل جیئند کی ایک بار پھر سے یاد تازہ کرادی۔

کمانڈر سربلند کے میسج دیکھ کر آخری ساعتوں میں بس اتنا کہہ سکا “اڑے قربان” ( میں آپ پر قربان) دوسری جانب سے قوم کی سربلندی کا بِیڑہ اٹھانے والے سربلند کا فوری جواب آیا “تو کُربان مہ بو، من پہ شُما کُربان” (آپ قربان مت ہوں، میں آپ لوگوں پر قربان)۔

سربلند کا یہ میسج پڑھ کر کمانڈر نے میسج بھیجا “پُھل، کیسا محسوس ہورہا ہے، موت کو سینے سے باندھ کر، اپنی مرضی سے اسکی جانب بڑھتے ہوئے؟” ایک توقف کے بعد سربلند کا جواب آیا “سنگت، یہ موت نہیں، تاریخ ہے، جو میرے سینے پر بندھا ہوا ہے، میں موت کی جانب نہیں بلکہ ابدی زندگی کی جانب بڑھ رہا ہوں، دوستوں سے وہیں ملاقات ہوگی۔” اسکے فوری بعد دوسرا میسج آیا “سنگت، دشمن کے آنے کا وقت ہوگیا ہے، میں چلتا ہوں، رخصت اَف اوارن (دوبارہ ملیں گے)۔” یہ پڑھ کر کمانڈر نے جلدی سے میسج لکھ کر سربلند کو بھیجا “سنگت، پورے تسلی اور بیداری کے ساتھ” لیکن یہ میسج کبھی سربلند کو نہیں پہنچ سکا۔ سربلند، دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ چکا تھا اور اسکے پاک لہو کی مہک فضا میں پھیل چکی تھی۔ کوہ باتیل کے قریب بلوچ ساحل سے ہوا کا اٹھتا ایک جھونکا، بلوچ وارڈ میں پھیلے اس پاک خون کی مہک کو اپنے دامن سے باندھ کر ایک لمبے سفر پر نکل چکا تھا۔ اور اس مہک کو پیغامِ آجوئی کی خوشخبری کی صورت مادر زمین کے ہر ایک ذرے تک پہنچانے نکلا تھا۔

ہر شہید کے غیر معمولیت و منفردیت پر کہا اور لکھا جاتا ہے۔ یہ دہرایا ضرور جاتا ہے لیکن یہ محض ایک پِٹا فقرہ نہیں بلکہ ایک آفاقی حقیقت ہے کیونکہ شہادت وہ رستہ ہے جہاں معمولی کا گذر نہیں۔ اس رستے پر چلنے کی سکت ان میں ہوتی ہے، جن کے ہاں زیست و مرگ کے تشریح ہی مختلف ہوتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جسم سے بڑھ کر خیال ہوتے ہیں، جو راہگیر نہیں راہ نما ہوتے ہیں، یہ ڈھلان کے مرضی پر بہنے والے دریا نہیں بلکہ خود میں خاموشی سے کئی دریائیں جذب کرنے والے سمندر ہوتے ہیں، یہ حالات کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ حالات کی حرکت انکا محتاج ہوتی ہے، نئے معمول تخلیق کرنے والے یہ انسان کبھی معمولی نہیں ہوسکتے۔ اسی لیئے ہر شہید کے بابت زبان سے چار لفظ ادا کرنے کا سوچیں یا نوک قلم کو رگڑنے کی حجت کریں، پہلے خیال کا دستک ہی انکے غیرمعمولیت کا ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنے ہر خیال و ہر عمل و انداز میں منفرد و غیرمعمولی، پھر اس غیرمعمولیت کو ایک معمولی انسان بیان کس حد تک کرسکے؟ ادا کس نہج تک کرے اور الفاظ کی بساط کی قید میں پابند کتنا کرسکے؟ اسلیئے شہیدوں پر لکھا ہر ایک تحریر نامکمل ہے، یہ بھی ایک اور نامکمل تحریر ہے۔

سربلند اپنی ذات، اپنے کردار اور اپنی شخصیت کے ہر ایک جہت میں منفرد تھا، اس سے مانوسیت رکھنے والا ہر ایک شخص اسکے پہلے مسکان سے ہی اسکی غیرمعمولیت بھانپ لیتا لیکن اس غیرمعمولیت کی گہرائی اور وسعت کو بھانپنے کی آنکھ جنرل اسلم بلوچ جیسے مردم شناس شخص کے پاس تھی۔

سربلند کی اگر غیرمعمولیت کو کسی کو سمجھنا ہے، تو اس غیرمعمولیت کو اسے ان تین معمولی سالوں میں سمجھنا ہوگا، جب ایک شخص موت کو خود گلے لگانے کا فیصلہ کرتا ہے، لیکن اسے تین سال انتظار کرنے کا کہا جاتا ہے اور وہ ان تین سالوں کو ایک غیرمعمولی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے انتظار میں اتنے معمول کے مطابق گذارتا ہے کہ اسکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگوں کو بھنک تک نہیں لگتی، جہاں تین سالوں میں لوگوں کی پوری شخصیت بدل جاتی ہے، ایمان بدل جاتا ہے، سوچ کے نقش و دیوار بدل جاتے ہیں اور بھرپور جوانی کے دہلیز پر قدم رکھنے والے سربلند کا فیصلہ اپنی جگہ سے ایک انچ تک نہیں بدلتا۔

سربلند تین سال قبل مجید بریگیڈ میں شامل ہوکر فوری طور پر فدائی حملے کیلئے تیار ہوتا ہے، لیکن انکے کم عمری کو دیکھ کر مجید بریگیڈ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کم از کم تین مزید سالوں تک وہ فدائی حملہ نہیں کرسکتے، اسے کہا جاتا ہے کہ اس دوران آپ اپنے فیصلے پر ٹھنڈے دماغ سے اچھی طرح سوچ لیں، اگر پھر بھی آپ اپنے فیصلے پر قائم رہے تب ہی عملی طور پر آپکو فدائین میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ تین سال ایوبی صبر کے تین سال تھے، ان طویل تین سالوں میں کئی ایسے انتہائی تلخ ایام تھے کہ جو کئی پہاڑی حوصلوں کے مالک دیو ہیکل شخصیات کو بھی توڑ گئے لیکن سربلند نا ٹوٹا اور نا بدلا، یہ تین سال شعور کے انتہا کے تین سال تھے، یہ تین سال بزرگی کے تین سال تھے، یہ تین سال عشق کے تین سال تھے، یہ سربلندی کے تین سال تھے۔

جب سربلند سے تین سال قبل کہا گیا کہ آپ کو انتظار کرنا ہے تو کافی دیر تک زمین پر نظر گاڑھے سربلند نے آنکھیں اوپر اٹھائیں، دونوں آنکھوں سے آنسووں کے قطرے نیچے ٹپکے اور اس نے کہا “ٹھیک ہے سنگت” اور تین سال بعد جب اسے کہا گیا کہ آپ کی باری آگئی ہے، تو اسکے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سج گئی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ سربلند کون ہے؟ اسکی کہانی کیا ہے؟ سربلند ان آنسووں سے لیکر مسکراہٹ کی کہانی ہے اور ان آنسووں سے لیکر مسکراہٹ کے بیچ میں جو کچھ بھی ہے، بلوچ کے خوشحال مستقبل اور آزادی کا راز سربلند نے وہیں کہیں رکھا ہوا ہے، جسے ہم سب نے، ہمارے نوجوانوں نے اور خاص طور پر ہر ایک مایوس دل نے ڈھونڈنا ہے۔

ان تین سالوں میں، ایک ایک دن کو گننے والا سربلند عرف عمرجان، جس کرب، جس تکلیف، جن جن تلخ تجربات و مشاہدات سے گذرا، وہ کئیوں کو توڑ چکے تھے، لیکن جانے کس خاک سے بنا تھا یہ شخص کہ وہ بکھرا نہیں، ٹوٹا نہیں، تذبذب کا شکار نہیں ہوا، ماحول سے متاثر نہیں ہوا، دنیا کی شوق ورنگوں کے گود میں گھر نہیں کرگیا، وہ ڈٹا رہا، وہ تپتا رہا لیکن پگھلا نہیں بلکہ کندن بن کر پختہ ہوتا گیا۔ وہ موت کا انتظار نہیں کررہا تھا بلکہ موت کے انتظار میں زندگی ڈھونڈ رہا تھا۔ اب اسکی تلاش مکمل ہوگئی، اسے زندگی مل گئی۔

سربلند رواں تحریک میں جہدکاروں کے لیئے ایک ایسی تاریخی کتاب ہے، جسکا ہر سبق صبر، ہر ورق مستقل مزاجی، ہر باب خود آگہی، ہر لفظ کشادہ نظری اور ہر جملہ قربانی ہے۔ اسے پڑھیں، اسے جانیں اور اسے یاد رکھیں۔ آنسو سے لیکر مسکراہٹ کے تین سالوں کے بیچ کے راز کو خود تلاشیں اور اس پر چلیں۔

اس طویل جہد کی راہ میں ایسے کئی خود ساختہ جہدکار بھی دیکھنے کو ملے، جو مہم جوئیت کی لَے میں ساتھ ہولیئے لیکن حالات کی تپش پڑتے ہی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے اور بعد ازاں بھری محفلیں ڈھونڈ کر وہاں یہ تاویلیں پیش کرتے کہ “میں تو بے غرض تھا، بے خوف تھا، مخلص تھا، محنتی تھا، اچھا بھلا تھا، مکمل انقلابی تھا، بس کیا کریں کہ ماحول ایسا تھا کہ میں بھی ایسا بن گیا۔” ان سے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا کہ ماحول نہیں آپ کی سوچ و نیت ایسا ہی تھا، آپ کو محض ایسے ماحول کی ضرورت تھی، جیسے ہی مِل گئی آپ اس میں ڈھل گئے، پہلے آپ کو میسر نہیں تھا، جب میسر ہوا، آپ نے اختیار کرلیا لیکن عمرجان ایک دلیل بن کر ثابت کرگیا کہ معمولی انسانوں کو ماحول بدل دیتے ہیں، اور جو سربلند ہوتے ہیں وہ ماحول کو بدلتے ہیں۔

ایک طرف، ایک تعلیم یافتہ نوجوان، آسودہ زندگی کے ممکنات کو ٹھکراتے ہوئے، کسی خوبرو محبوبہ کو گلے لگانے کے بجائے بارود سے بھرا جیکٹ گلے لگا کر وطن کے عشق میں دشمن پر نظریں گاڑھے، مسکراتے ہوئے بڑھ رہا تھا۔ عین اسی وقت شاید اسی گوادر شہر میں کوئی والد اپنے بچوں کیلئے رات کے کھانے کیلئے راشن خرید رہا تھا، کوئی ماں اپنے بیٹے کے انتظار میں صحن میں بیٹھی ہوگی، کوئی نوجوان موبائل خرید رہا ہوگا، ایک مچھیرا جال بچھانے کے بعد مچھلیوں کا انتظار کررہا ہوگا، کوئی مولوی مسجد کی جانب شام کی اذان دینے قدم بڑھا رہا ہوگا، کوئی عاشق محبوبہ کے فون کے انتظار میں ہوگا، کوئی دکاندار گاہک کا سامان باندھ رہا ہوگا۔ ان سب کے اگلے دن کے، اگلے پَل کے، مسقبل کے منصوبے ہونگے، زندگی کے خواب ہونگے۔ عین اسی وقت، ان میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ ایک عاشق، جسکے وجود کے ہونے تک کا ان سب کو پتہ نہیں، وہ ان سب کے آنے والے پَل، اگلے دن اور مستقبل کی خاطر ڈیٹونیٹر کو اپنے مُٹھی کی گرفت میں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ اس پاگل کا تعلق دیوانوں کے اس قبیل سے ہے، جو تاریخ و مورخ کو نہیں ڈھونڈتے بلکہ تاریخ انکے پیچھے بھاگتا ہے اور مورخ انکا محتاج رہتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں