بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پیر کے روز پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا –
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تربت میں معمر خاتون تاج بی بی کی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں مختلف سیاسی و طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنان نے شرکت کی اور تاج بی بی کے قتل کے خلاف آواز اٹھایا۔
مظاہرین نے تاج بی بی کے قتل کے خلاف نعرے بازی کی اور ان کے ہاتھوں میں بلوچستان میں خواتین کو ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آگاہی پلے کارڈز تھے جس میں مختلف قسم کے نعرے درج تھے۔
اس موقع پر مقررین نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں دو دہائیوں سے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے مگر حالیہ دنوں بلوچ روایات کو پامال کرتے ہوئے خواتین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے بلوچ تاریخ اس بات کی مثال دیتاہے کہ جب کسی بھی بلوچ خواتین نے اپنی چادر پھیلایا ہے تو بڑی بڑی جنگیں بھی ختم کر دیے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے اب بلوچ روایات کو پامال کرنا اپنے فرائض میں شامل کر دیا ہے۔
بلوچستان میں آئے دن بلوچ خواتین کی بے حرمتی اور انہیں بے آبرو کرنے کا سلسلہ جاری ہے ان جیسے جرائم کا بلوچ قوم کے اندر پہلے تصور نہیں کیا جاتا تھا مگر اب روزانہ کی بنیاد پر ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے مگر حکومت اور حکمرانوں نے آنکھوں بند کر دی ہیں اور ان مظالم پر خاموشی اختیار کی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں ان مظالم میں اضافہ ہو رہا ہے اگر اس تسلسل کو روکا نہیں گیا تو یہ آنے والے دنوں میں انسانی بحران کی شکل اختیار کریگا۔
مقررین نے کہاکہ تاج بی بی نے ایسا کیا گناہ کیا تھا جس پر انہیں اس طرح گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کر دیا گیا تاج بی بی ایک گھریلو خاتون تھیں گھر سے نکل کر جنگل کی طرف اپنے بچوں کی پیٹ پالنے کیلئے لکڑیاں جمع کرنے گئی تھیں مگر انہیں حیوانیت کا نشانہ بناکر قتل کر دیا گیا اور انہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں جنونیت پسند اہلکار بھیجے ہیں جو روزنانہ کی بنیاد پر بلوچستان میں اپنی حیوانیت کی مثال قائم کرتے ہیں۔
خواتین کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے طول و عرض میں کئی عرصے سے خواتین کو ظلم و جبر اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حد یہ ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی اہلکار بلوچ خواتین کے ساتھ زیادتی کے سنگین جرائم میں بھی ملوث ہیں جو بلوچ کلچر اور کوڈ آف کنڈیکٹ پر واضح حملے ہیں مگر اس کا سلسلہ توں کے توں جاری و ساری ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ تاج بی بی کا قتل یہ واضح کر دیتا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی اہلکاروں کو مکمل طور پر آزادنہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جسے چاہیں نشانہ بنائیں کیونکہ انہیں پوچھنے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی جرات اور طاقت کسی میں بھی نہیں ہے۔
مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے مگر بدبختی سے بلوچستان میں ان سنگین جرائم پرپاکستان بھر میں خاموشی ہے جو لمہ فکریہ ہے جب بھی بلوچستان کے سائل و وسائل کی بات ہوتی ہے بلوچستان میں قدرتی معدنیات کی بات ہوتی ہے تو پاکستان کے حکمران سب سے آگے ہوتے ہیں یہ بتانے میں کہ بلوچستان میں معدنیات بھرے پڑے ہیں مگر جب یہاں کے انسانوں کی بات ہوتی ہے تو سب غائب ہو جاتے ہیں جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے لوگ اور حکمران بلوچستان کے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ان کیلئے اہم ہے تو بس بلوچستان کے معدنیات اور وسائل کیونکہ اس سے یہ اپنی آسائش زندگی گزار سکتے ہیں۔
بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے پورا مکران آج ریاستی جبر کا شکار ہے۔ کبھی ملک ناز کو رات اندھرے میں قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی کلثوم کبھی حیات کو دن دہاڑے ماں کے سامنے آٹھ گولیاں مارا جاتا ہے تو کبھی نوعمر قدیر کو سائکل پر باند کر گھیسٹا جاتا ہے مگر ان تمام مظالم کے باوجود حکمرانوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز کے خلاف کوئی کارروائی بھی عمل میں نہیں لایا جاتا۔ پاکستان میں قانون اور انصاف برائے نام کے ہو چکے ہیں مگر حقیقت میں قانون اور انصاف انہی کے ہاتھوں میں ہے جن کے ہاتھوں میں طاقت ہے۔
مقررین نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں بلوچوں کو قتل کیا جاتا ہے انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ بس بلوچ کی کیوں باتے کرتے ہو یہاں پر دیگر اقوام بھی مظالم کے شکار ہیں ان کے بارے میں بھی بات کرو مگر ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں ہماری بلوچ کی شناخت کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے ہمیں مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اگر ہمیں بطور انسان سمجھ کر قتل کیا جاتا ہم ہم بلوچ کیلئے نہیں بلکہ انسانیت کیلئے آواز اٹھاتے مگر ہماری شناخت کی وجہ سے ہمیں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بلوچوں کو ہر طرح کے مظام کا نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ہمارے لوگوں کے کاروبار کو بند کر دیا گیا ہے تاکہ وہ دو وقت کی روٹی کیلئے بھی دربدر ہو جائیں گوادر میں بھی ماہیگیر سراپا احتجاج ہیں طلبہ بھی سراپا احتجاج ہیں بلوچستان میں ایک بھی ایسا طبقہ نہیں جو ان مظالم سے محفوظ ہو ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کی شناخت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
احتجاج میں مختلف سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کرتے ہوئے تاج بی بی کی قتل کی مذمت کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا –