بلوچ نوجوان نشانے پر
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ
مورخہ 4 ستمبر کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں شادی کی ایک تقریب جاری تھی، لیکن خوشی کے اس سما میں شرکا کے چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر تھے۔ اس پریشانی کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، بلکہ اسکا تعلق بلوچستان اور کوئٹہ کے عمومی حالات سے تھا، موجودہ حالات نے لوگوں کو ایک مستقل غیریقینی صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے۔ لوگوں کے خدشات اس وقت سچ ثابت ہوئے جب پاکستانی فوج اور کاونٹر ٹریرزم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے اچانک شادی کی تقریب پر چھاپہ مارا۔ تاہم اس چھاپے کی اصل وجوہات ابتک ظاہر نہیں ہوسکے ہیں۔
اس واقعے کی تفصیلات ابتک مبہم ہیں، اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود لاپتہ ہونے کے خوف سے کوئی چشم دید گواہ سامنے آنے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس چھاپے کے دوران آٹھ نوجوانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تھا۔ جو تاحال لاپتہ ہیں۔ اسکے بعد اہلخانہ پولیس تھانے کے چکر لگاتے رہے، انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے رہے کہ انکے پیاروں کو منظرعام پر لانے میں کردار ادا کیا جائے۔ لیکن یہ تمام کوششیں ابتک بے سود نظر آرہی ہیں۔
جن نوجوانوں کو اس تقریب سے گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا تھا انکی شناخت منصور قمبرانی، واسع قمبرانی، داود قمبرانی، زبیر قمبرانی، عزیر زہری، شکیل شاہوانی، عمیر زہری اور شبیر سمالانی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ یہ تمام نوجوان آپس میں رشتہ دار ہیں۔
چار دنوں بعد مورخہ 8 ستمبر کو اسی خاندان کے ایک اور فرد فخرالدین قمبرانی کو بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے چھاپہ مار کر اپنے ساتھ لے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ان تمام لاپتہ افراد کے بابت مزید ابتک کوئی معلومات میسر نہیں ہوسکی ہے، نا ہی انہیں کسی پولیس تھانے میں رکھا گیا ہے اور نا ہی چوبیس گھنٹے گذرنے کے بعد انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
بلوچ نوجوانوں کے خلاف ریاستی اداروں کا یہ جارحانہ رویہ محض جبری گمشدگیوں تک موقوف نہیں ہے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جارحانہ رویہ ان بلوچ نوجوانوں کے خلاف بھی استعمال ہورہا ہے جو محض اپنے تعلیمی مسائل کے حل کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ 8 ستمبر کو ہی کوئٹہ کے میڈیکل کے طالب علموں کے ایک احتجاج پر میڈیا کے کیمروں کے عین سامنے پولیس نے لاٹھی چارج شروع کی، جس کی وجہ سے متعدد طالب علم زخمی ہوگئے۔
یہ محض اکا دکا واقعات نہیں ہیں بلکہ ہر ماہ بلوچستان کے سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں فورسز کی جانب سے ایسے جارحانہ اقدامات کو رپورٹ کرتے آئے ہیں۔ اب یہ معمول بن چکے ہیں۔
بلوچستان کے ایک سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنے گذشتہ ماہانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ محض اگست کے مہینے میں بلوچستان سے 40 نوجوانوں کو فورسز جبری گمشدگی کا شکار بنا چکے ہیں۔ 24 نوجوانوں کو دوران حراست ماورائے قانون قتل کرکے انکی لاشیں پھینکی گئی ہیں۔ جن میں سے اکثر کو بدنام زمانہ سی ٹی ڈی نے مبینہ طور پر جعلی مقابلوں میں قتل کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں، خاص طور پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ جبری طور پر گمشدہ کیئے گئے لوگوں کی تعداد میڈیا میں ظاہر تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ فورسز کی دھمکیوں کے بعد میڈیا میں آنے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ میڈیا میں ان اداروں کا نام لیں گے تو انکے گمشدہ عزیزوں کو قتل کیا جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ کو باوثوق ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق 20 اگست کو چینی انجنیئروں پر ہونے والے حملے کے بعد محض گوادر سے درجنوں بلوچ نوجوان گرفتار کرکے لاپتہ کیئے گئے ہیں لیکن ان میں سے کسی کیس کو خوف کی وجہ سے میڈیا میں نہیں لایا گیا ہے۔
متذکرہ واقعات بلوچستان کے دو دہائیوں کی حالات کی محض ایک جھلک ہیں۔ ابتک بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان سالوں سے لاپتہ ہیں اور کئیوں کو “مارو اور پھینکو” پالیسی کے تحت قتل کیا جاچکا ہے۔
کسی سماج کے نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ ترقی اور تبدیلی کا ضامن ہوتے ہیں۔ انہیں مواقع دیئے جاتے ہیں اور انکی تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں نوجوان جاری کشیدگی کا سب سے پہلا نشانہ بنتے آرہے ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور بلوچ عوام کیلئے سب سے حیران کن امر یہ رہی ہے کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی یہ سنگین خلاف ورزیاں کسی عالمی ادارے کی توجہ ابتک اپنی جانب کھینچنے میں ناکام رہی ہیں۔ جو یقینا ایک المیئے سے کم نہیں۔