ایک عام شہری اور جہدکار میں فرق – برزکوہی

1422

ایک عام شہری اور جہدکار میں فرق

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جب وقت وحالات کی معمولیت تبدیلی کی کروٹ لیکر غیر معمولیت میں داخل ہوجائے تو یہ فیصلہ کرنا ایک موضوعی امر رہ جاتا ہے کہ حالات خراب ہیں یا بہتر؟ ایک کی بری حالت کسی کا موقع ہوتا ہے اور کسی کا اچھا وقت دوسرے کی تباہی ہوسکتی ہے، یہ فیصلہ کبھی وقت وحالات خود نہیں کرتے کہ وقت کے کروٹ کے متاثرین حاشیئے کے کس جانب ہونگے۔ غیر معمولی حالات ہمیشہ غیر معمولی مواقع کے حامل ہوتے ہیں اور غیرمعمولی مواقع، غیرمعمولی فیصلوں کا متقاضی ہوتے ہیں اور غیر معمولی فیصلوں کا متحمل محض غیر معمولی رویوں کے مالک، غیر معمولی انسان ہی ہوتے ہیں۔ مواقع انکے قسمت کے دروازے پر دستک دیتی ہیں، جو حالات کی لہروں کے تھپیڑوں کے سہارے اپنی ناو چھوڑنے کے بجائے، ہر قسم کے حالات کیلئے تیار ہوکر ان میں اپنے موقع کی سیڑھی تلاشتے ہیں۔ وہ موزوں حالات کو نہیں تلاشتے بلکہ جیسے بھی حالات ہوں انہیں اپنے حق میں موزوں بناتے ہیں۔ انقلابی ادوار میں ایسے ہی غیرمعمولی انسانوں کو جہدکار یا انقلابی کہا جاتا ہے۔

ایک جہدکار کسی عام شہری کے نسبت، مختلف سوچ و اپروچ رکھتا ہے، اسکے تجزیات، اسکی پرکھ، اسکے فیصلے اور اسکے ترجیحات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیئے ایک انقلابی جہدکار کا پہلا کام ہی حالات کو معمول کے دلدل سے نکال غیر معمولی حالات پیدا کرنا ہوتا ہے، جب غیر معمولی حالات پیدا ہوگئے، تب وہ ان حالات کو اپنے اجتماعی مفادات وحتمی مقصد کی جانب موڑنے کی جتن کرتا ہے۔ اگر آپکی سوچ، تجزیات، پرکھ و ادراک، فیصلے اور ترجیحات وہی رہینگے جو کسی بھی عام شہری کے ہیں، تو کیا آپ خود کو جہدکار یا انقلابی گردان سکتے ہیں؟ بالکل نہیں، بلکہ آپ حالات کے کیفیت کے شکار ایک ایسے عام شہری ہیں، جو معمول کے تیزی سے بدل جانے پر گبھرا جائیں گے، آپ مواقع تلاشنے و پیدا کرنے کے بجائے، خوف کا شکار ہوکر جلد از جلد ایک نئے معمول کے پیدا ہونے کا انتظار کریں گے۔ آپ کسی وقتی کامیابی کو دیکھ کر خوش فہمی اور وقتی ناکامی کو دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔

یہی بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ یہاں انقلابی جہدکار کم اور ایک عام شہری کا سوچ و فکر، خواہشات و ترجیحات، ادراک و تجزیات رکھتے ہوئے دعوے کے انقلابی قیادت سے لیکر سپاہی تک کی صورت میں بھاری تعداد میں موجود ہیں اور پھر زیادہ تر یہی لاٹ مواقع کی کم یابی و دنیا کی بیگانگی کا زیادہ رونا بھی روتا ہے۔

جب بھی تنظیمی، تحریکی، جنگی و انقلابی تقاضات و مستند اطوار پر انقلابی طرز پر عمل درآمد نہیں ہوگا، تو پھر کہیں بھی اور کچھ بھی معمولی و غیر معمولی تبدیلی یا واقعات رونما ہوں، غیر تنظیمی و تحریکی طرز پر چلنے والے ہمیشہ خوف و الجھنوں کا شکار رہینگے، غلط تجزیئے و غلط اندازے پھر باعث خوف اور الجھن بن کر مایوسی کو دعوت دیں گی۔

بلوچ قومی تحریک کے رواں دور کا آغاز ہوتے ہی بلوچ کیلئے حالات غیرمعمولی بن گئے۔ یہ غیرمعمولی حالات بلوچ آزادی پسند سیاسی و عسکری تنظیموں کی بے پناہ محنت و قربانیوں کے طفیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خطے میں جو بھی چھوٹی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں تو بھلے چھوٹے پیمانے پر ہی لیکن بلوچ بطور اسٹیک ہولڈر درخوراعتنا ٹہرتا ہے۔ آج اگر افغانستان میں رجیم بدلتا ہے تو ہم یہ تجزیہ کرنے کا سکت رکھتے ہیں کہ جانچیں اسکے اثرات ہم پر کیا مرتب ہونگے اور ہم بدلتے حالات سے کیسے مواقع پیدا کرکے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ غیرمعمولی حالات نا ہوتے تو ہماری حیثیت یہ ہوتی کہ ہم محض خاموش بیٹھ کر حالات کے لہروں کا انتظار کرتے کہ وہ ہمیں بہاکر کس جانب لیجاتے ہیں۔

غیرمعمولی حالات کا پیدا کرنا امر اول ہے، لیکن جو سب سے بڑا سوال اب پیدا ہوتا ہے کہ ہماری صلاحیتیں کیا ہیں کہ ہم جیسے بھی حالات ہوں انہیں اپنے حق میں موڑیں؟ کیا یہ صلاحیت کسی خوف و الجھن کے شکار انسان میں ہوسکتی ہے؟

کبھی کبھار بلوچ تحریک کے قیادت سے لیکر ایک کارکن تک کی سوچ کے زاویئے اور روزمرہ اطوار کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جیسے ہی حالات کوئی بڑا کروٹ لیں تو انکے تجزیئے، ترجیحات اور حالات سے توقعات اور کسی دھابے میں چائے پر تجزیہ کرتے ایک عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

افغانستان کے جیسے ہی حالات تبدیل ہوئے، اچھے اچھے طرم خان جہدکاروں کے چہرے پر دلچسپی کے آثار نمودار ہونے کے بجائے ماتھے پر مایوسی کے شکن نظر آنے لگے۔ کچھ یار لوگوں نے تو طالبان کے سفید جھنڈے میں کفن دیکھنا شروع کردیا اور حالات کا بے تکا تقابل نوے کی دہائی سے کرکے اختتام کا انتظار کرنے لگا۔

آپ کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ آپکا سوچ، زاویہ نظر اور کردار و عمل ایک عام شہری سا ہو لیکن نتائج و مقام عام شہری سے مختلف آپکے حق میں آئیں؟ آپ غیرمعمولی حالات میں بھی ایک معمول اور کمفرٹ زون تلاشیں اور خود کو تبدیلی کا نمائیندہ بھی سمجھیں؟

ایک انقلابی جہدکار کسی عام شہری سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ انقلابی جہد کار تنظیمی جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ تنظیمی جذبے کا مطلب ہی اپنے انفرادی مفادات حتیٰ کے زندگی تک کو بھی مقصد کیلئے قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہوتا ہے۔

ایک انقلابی جہدکار لبرل سوچ سے پاک ہوتا ہے، لبرل ازم کا معنی ہی یہ ہے کہ وقتی امن، معمول اور کمفرٹ زون کی خاطر سمجھوتا کرنا۔

امریکی سیاسی محقق بل مائیرایک عام شہری اور ایک جہدکار میں فرق کرتے ہوئے، کسی انقلابی جہدکار کے چار غیرمعمولی خصوصیات یوں بیان کرتا ہے کہ “ایک انقلابی جہدکار بننے کی جانب پہلا قدم ایک قابل بھروسہ انسان اور ذمہ دار شہری ہونا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کسی جہدکار کو اپنے کردار و افعال سے عام شہریوں کی نظر میں عزت و وقار حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ آپکے کہے پر لوگ یقین اور آپکے سرگرمیوں پر بھروسہ کرسکیں۔ آپکو اپنے سماج کے مثبت اقدار کو “ہاں” کہہ کر اپنانا ہوتا ہے تاکہ آپ اپنے لوگوں میں سے ہی ایک رہیں اور انکی طرح لگیں۔

“ہاں” کے بعد ایک انقلابی جہدکار کو پھر ” نہیں” بننا پڑتا ہے۔ یہ دوسرا قدم بغاوت کا قدم ہوتا ہے۔ آپکو ان تمام مسلط حالات، غلامی، سماجی برائیوں کو پرزور آواز میں نہیں کہہ کر انکے خلاف بغاوت کرنی ہوتی ہے۔ آپکا وجود ہی بغاوت بن جائے۔

تیسرا قدم سب سے اہم ہوتا ہے، کیونکہ اب آپ تبدیلی کے نمائیندے ہیں اور آپکو ہروہ چیز بدل دینی ہوتی ہے، جس نے آپکے سماج کو زنجیروں میں جکڑ کر ترقی کی جانب پیشقدمی سے روکا ہوا ہے۔ آپکو خود کو تبدیل کرنا ہوتا ہے، اپنے سوچ کو بدلنا ہوتا ہے، پھر لوگوں کو تعلیم دیکر، آگاہ کرکے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ پھر جدوجہد کرکے اپنے حالات کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

انقلابی جہدکارکا آخری صفت اصلاح پسندی ہوتا ہے، ایک بار اگر آپ حالات تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے پھر آپکو اس قابل ہونا ہوتا کہ آپ پرانے کی جگہ نیا لاسکیں، آپکے پاس تمام مسائل کا حل ہونا چاہیئے اور انہیں نافذ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیئے۔”

بلوچ جہدکاروں کو ایک بات اچھی طرح سے یاد رکھنا ہوگا کہ جب تک ہم اپنی سوچ، ترجیحات، زاویہ نظر اور خواہشات ایک مکمل انقلابی جہدکار کے قالب میں نہیں ڈھالتے، تب تک ہر بدلتی حالت ہمارے لیئے قہر ثابت ہوتی رہیگی، پھر چاہے خداوند تعالیٰ خود موقع ہاتھ میں لیئے ہمارے دروازے پر دستک دے، ہم اس وقت بھی لمبی تان کر سونے میں مصروف ہوکر وہ موقع بھی ضائع کردیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں