ایک زمین دوست ۔کینگی سلیمان بلوچ

361

ایک زمین دوست

تحریر:کینگی سلیمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ ایک تباہی کا نام ہے۔ جنگ میں بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں، جنگ میں بہت ساری تکلیفیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جنگ میں انسان کو بہت کچھ کھونا پڑتا ہے اور انسان کو جنگ میں قربانی دینی پڑتی ہے، جو انسان جنگ میں قربانیاں دینے سے پیچھے نہ ہٹے اور وطن کے لئے بنا خوف اپنی جان قربان کردے، اُسے ایک جہد کار کہا جاتا ہے اور میں ایک ایسے جہد کار کے بارے میں بات کررہا ہوں، جس نے اپنی جان قربان کردی۔ اُس نے پہلے بھی کچھ ایسے رشتے کھو دیئے تھے کہ اُن قربانیوں کے سامنے اپنی جان تو بہت چھوٹی بات ہے، آزادی کی جنگ میں اُس عظیم قربانی دینے والے ہستی کا نام شہید مسلم ہے، اُس سے پہلے بھی مسلم کے دو بھائی شهید ہوچکے ‌ہیں۔

مسلم مشکے کی علاقے میہی میں محمد حسین کے گھر میں پیدا ہوئے، میہی ایک ایسا گاوں ہے جس میں کرداروں کی کمی نہیں ہے کچھ ایسے لوگ بھی جنم لے چکے ہیں، جنہوں نے اپنے خون سے بلوچستان کا نام لکھا ہے۔

شہید مسلم نے ابتدائی تعلیم مشکے میہی میں حاصل کی اور آگے مشکے جیبری ہائی اسکول میں پڑھے اور انہیں اس بات کا احساس اسی اسکول میں ہوا کہ ہم ایک غلام قوم ہیں اور پاکستان کے اس ظلم و ستم کو برداشت نہ کرسکے اس لئے اسے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

شہید مسلم کے چھ بھائی تھے اور ان چھ بھائیوں نے اپنے سرزمین اور قوم کے ساتھ عہد کیا کہ پاکستان ریاست کے ساتھ آخری گولی تک جان کا نذرانه پیش کرینگے، جس طرح پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کس طرح نرمزار شہیک بلوچ اپنے بھائی اور خاندان کے کئی ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرکے اپنے قوم اور دنیا کے ممالک کو آزادی کا ایک راہ دکھا کر اس دنیا سے امر ہوگئے۔
.
شہید مسلم گوریلا کمانڈر شهید شہک جان کے سب سے چھوٹے بھائی تھے، مسلم جان کم عمری میں مزاحمتی تنظیم بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کی لیکن مسلم بلوچ کو چهوٹے عمر کی وجہ سے اور تنظیم کے نظم و ضبط کے مطابق ایک تنضیمی ساتهی رہا۔

18سال کی عمر میں مسلم تنظیم کے ڈسپلین کے مطابق اپنے بهائیوں اور تنظیمی کئی دوستون کے ہمراہ جنگی حکمت عملی میں شامل ہوئے۔

2015 کو مشکے میہئی میں ایک بڑے پیمانے پر پاکستانی فوج نے آپریشن کیا، بہت سی گهروں کو نظرآتش کیا گیا۔ اس آپریش کے دوران شهید مسلم کے دو بهائی شہید ذاکر اور شیہک بلوچ اور ایک چاچا سفر خان 12 ساتھیوں کے ساتھ شھید ہوگئے۔ مسلم خود بهی اسی جنگ میں موجود تهے۔,

ان شہیدوں کے بعد مسلم میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا، وہ اپنے جدوجہد میں تیزی لائے، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑی, ان کو اس کی صلاحیتوں اور بہادری کی وجہ سے ایک کمانڈر کا عہدہ دیاگیا, اور وہ دشمن کی نظروں میں آگیا, وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی علاقوں میں جاکر دشمنوں کو شکست دیتے رہے, اور بد قسمتی سے 2020 ستمبر 18 کو شھید کمانڈر مسلم اپنے 5 ساتھیوں کے ساتھ کہیں جارہے تھے تو اچانک صبح 9 بجےان کا سامنا دشمن سے ہوا. شام 4 بجے تک دشمن سے دوبدو جنگ لڑتے ہوئے دشمن کے کئی لوگ مارے گئے آخرکار شہیدوں کی گولییاں ختم ہونے کی وجہ سے وہ شہید شھیک جان کے فلسفے کو اپناتے ہوئے اپنی آخری گولی اپنے سر میں مار کر اس دنیا میں امر ہوگئے۔ اس جنگ میں ایک ساتھی بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوا لیکں شھید مسلم بلوچ، شھید سکندر بلوچ، شھید سعداللہ بلوچ، شھید مراد بلوچ اس جنگ میں شہید ہوگئے۔

شہید تو جسمانی طور پر ہم سے بچھڑ گئے لیکں ان کا فکر ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔
انشاءاللہ ان جوانوں کی قربانی ضائع نہیں جائےگی، اگر بلوچستاں میں ایک بھی بلوچ رہے گا تو ان شہیدوں کے مقصد کو اس کے انجام تک پہنچائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں