افغان فوج کیوں نہ لڑی ؟
تحریر: سمیع سادات
دی بلوچستان پوسٹ
میں گذشتہ ساڑے تین ماہ تک جنوبی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں کسی وقفے کے بغیر دن رات طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف رہا جو روز بروز افغان علاقوں پر شب خون مارتے ہوئے قبضہ کرتے جارہے تھے ، وہ ہم پر پر بار بار حملے کررہے تھے ، ہم نے نہ صرف ان کے حملوں اور پیشقدمی کو روکے رکھا بلکہ انہیں بھاری مالی اور جانی نقصان بھی پہنچایا ،پھر اچانک یہ ہوا کہ افغان صدر اشرف غنی نے مجھے صوبہ ہلمند سے کابل آنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ، میں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کابل پہنچا تو مجھے افغانستان کی اسپیشل فورسز کی کمان سنبھالنے کے آرڈر موصول ہوگئے مگر طالبان میرے کمان سنبھالنے سے بھی پہلے کابل شہر میں داخل ہونا شروع ہوچکے تھے ، ان کے خلاف اسپیشل فورسز کی طرف سے کارروائی کرنے میں کافی تاخیر ہوچکی تھی، میں جسمانی طور پر بہت تھک چکا تھا میں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا تھا غصے کی وجہ سے میرے لیے اپنے جذبات پہ قابو رکھنا مشکل ہورہا تھا ،گذشتہ ہفتے امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا اگر افغان فوجی اپنے لیے طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو امریکی فوجی ان کے لیے جنگ لڑکر اپنی جانیں کیوں قربان کریں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغان فوج طالبان کے خلاف لڑنے کا عزم اور حوصلہ نہ پیدا کرسکی اور یہ جنگ ہارگئی مگر کوئی اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کررہا ، اس شکست کی بڑی وجہ افغان فوجیوں میں بڑھتا ہوا یہ احساس تھا کہ اس جنگ میں ہمارا بڑا اور اہم شراکت کار یعنی امریکہ ہمیں تنہا چھوڑ کر واپس جارہا ہے ۔ گذشتہ چند مہینوں سے صدر جوبائیڈن کے پے درپے بیانات اور لب و لہجے سے افغان عوام سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی اور تذلیل کے واضح اشارے مل رہے تھے ، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ افغان فوج کو بھی اس الزام سے مبری نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ، اسے اقربا پروری اور افسر شاہی جیسے سنگین مسائل کا سامنا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بھی طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کا ارادہ ترک کردیا تھا اور اس کی واحد وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارا پارٹنر امریکہ ہم سے بھی پہلے طالبان کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کرچکا تھا ۔
مجھے یہ دیکھ کر دکھ اور تکلیف ہوتی ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن اور ان کے دیگر مغربی حلیف افغان فوج پر الزامات لگارہے ہیں کہ افغان فوج کس طرح اتنی آسانی سے شکست کھا گئی مگر وہ اس شکست کے پس پردہ محرکات اور وجوہات کا نہیں بتاتےکہ آخر یہ سب کچھ ہوا کیوں؟ کابل اور واشٹگن میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات ہماری فوج کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے جس نے ہماری جنگ لڑنے کی صلاحیت کو بہت محدود کردیا تھا ، امریکی اور افغان قیادت کی باہمی چپقلش کے پیش نظر ہم اپنے فرائض کماحقہ ادا کرنے سے قاصر رہے ،امریکہ سالہا سال سے جنگ کے دوران ہمیں لاجسٹک سپورٹ مہیا کرتا آیا ہے مگر انخلاء کے معاہدے کے بعد ہم اس سپورٹ سے محروم ہوگئے تھے اس کی دوسری بڑی اور اہم وجہ امریکی اور افغان قیادت کی طرف سے ہمیں واضح گائیڈ لائن کا نہ ملنا تھا ۔
میں افغان فوج میں ایک تھری سٹار جنرل کے فرائض انجام دے رہاہوں ، پچھلے گیارہ مہینوں سے میں جنوب مشرقی افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں دوسو پندرہ میوند کورکی قیادت کررہا تھا ، اس جنگ میں افغان فوج کے پندرہ ہزار جوان حصہ لے رہے تھے میرے سینکڑوں افسر اور جوان اس جنگ میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کرچکے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ میں اس وقت خود کو بہت تھکا ہوا اور مایوس جرنیل سمجھ رہا ہوں ، میں اس جنگ کے خاتمے اور افغان فوج کی عزت برقرار رکھنے کے لیے کوئی پریکٹیکل لائحہ عمل دینا چاہتا تھا میں یہاں افغان فوج کی غلطیوں کا دفاع یا اسے بری الذمہ قرار دینے کے لئے نہیں بیٹھا ، حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے فوجی جان توڑ کوشش کر کے طالبان کے خلاف لڑے مگر امریکی اور افغان قیادت کے فیصلوں نے انہیں نیچا دکھا دیا ۔
دو ہفتے قبل جب ہم جنوبی شہر لشکرگاہ کو طالبان کے قبضے سے چھڑانے کے لیے برسرپیکار تھے عین اسی وقت افغان صدر اشرف غنی نے مجھے فوج کی کمان چھوڑ کر کابل آنے کا حکم جاری کردیا اور مجھے افغان اسپیشل فورسز کا کمانڈر نامزد کردیا ، یہ فورس ملک کے سب سے ایلیٹ جنگجوؤں پر مشتمل ہے چنانچہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس حکم کی تعمیل میں اپنے جوانوں کو لڑائی کے بیچ میں چھوڑ کر پندرہ اگست کو کابل ہہنچ گیا تاکہ اسپیشل فورسز کی کمان سنبھال سکوں ، مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ جنگ کی اصل صورت حال کیا ہے اس کے بعد اشرف غنی نے کابل کی سیکیورٹی کی اضافی ذمہ داری بھی میرے کندھوں پر ڈال دی مگر میرے پاس یہ سب کچھ کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں تھا، طالبان برق رفتاری سے آگے بڑھتے رہے اور اشرف غنی ہمیں تہنا چھوڑ کر ملک سے فرار ہوگئے افغان فوج کے جوانوں میں اس بات ہر شدید اشتعال پیدا ہوگیا تھا کہ اشرف غنی اور ان کے رفقاء ہمارے ساتھ صریح دھوکا کیا ہے ۔
اشرف غنی کے اچانک فرار ہونے سے طالبان کے ساتھ کابل میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کرنے کی تمام کوششوں کو شدید دھچکا لگا اگر ایسا ہوجاتا تو ہم مزید کئی دنوں تک کابل پر اپنا قبضہ بر قرار رکھ سکتے تھے اس صورت میں ہم افغانستان سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی کے انخلاء میں بھی بہتر کردار ادا کرسکتے تھے مگر سب کچھ اس کے بر عکس ہوا ملک شدید بدامنی اور افراتفری کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں ہمیں کابل ایئرپورٹ پر اندوہناک مناظر دیکھنے کو ملے یہ ایسے مناظر کا ہی رد عمل تھا کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو پندرہ اگست کو یہ کہنا پڑا کہ افغان فوج کوئی جنگ لڑے بغیر ہی شکست کھاگئی مگر ہم آخری لمحے تک یہ جنگ بڑی بہادری اور دلیری سے لڑے گزشتہ بیس سال میں ہمارے 66 ہزار جوان افغانستان کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں جو ایک اندازے کے مطابق ہماری کل فوج کا پانچواں حصہ بنتا ہے ۔
لہذا افغان فوج کو کیوں شکست ہوئی؟ اس سوال کا جواب تین حصوں پر مشتمل ہے، اول یہ فروری 2020 ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اور طالبان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ تھا جو ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوا ، اس معاہدے نے یہ طے کردیا تھا کہ امریکہ کے اس خطے میں مفادات ایک خاص تاریخ تک ہیں ، دوم یہ کہ اس معاہدے کے بعد ہمیں کنٹریکٹر کی طرف سے جنگ کے دوران ملنے والی وہ لاجسٹک سپورٹ ملنا بند ہوگئی تھی جو کسی بھی فوجی آپریشن کی بنیادی ضرویات سمجھی جاتی ہے ، سوئم کرپشن صدر اشرف غنی کی حکومت کے ہر شعبے میں سرایت کر گئی تھی جو بڑھتے سینئر عسکری قیادت تک بھی پہنچ گئی جس نے ہماری فوج کس مفلوج کر کے رکھ دیا ۔
(جاری)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں