افغانستان : پاکستانی روپے کے ذریعے افغان بینکنگ نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش

507

پندرہ اگست کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے ، اشرف غنی کے فرار کے بعد سے افغانستان میں افراتفری کا ماحول تاحال جاری ہے، افغان عوام بالخصوص گذشتہ بیس سال کے دوران سرکاری و سیکیورٹی اداروں میں نوکری کرنے والے نوجوانوں کے اپنے ملک چھوڑ جانے کے سبب مختلف ادارے مکمل یا جزوی طور پر بند پڑے ہوئیں ہیں وہی دوسری جانب افغانستان کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے باعث لوگوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان کی جانب سے ایک منظم مافیا جو کہ خود افغانوں پر مشتمل ہے افغانستان کی زوال پذیر اقتصادی صورتحال کو مزید گھمبیر بنانے اور بینکنگ نظام کو مفلوج بنانے کےلئے افغانستان میں بڑے پیمانے پر پاکستانی روپے کی ترسیل شروع کی ہے اور افغانستان سے ڈالر بذریعہ سمگلنگ پاکستان منتقل کیا جارہا ہے ۔

پاکستانی بینکوں میں ڈالر کی کمی اور روپے کی قدر میں کمی کے سبب افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان و افغانستان کے درمیان تجارت پاکستانی روپے اور ڈالر میں ہورہا ہے ۔

ایک باوثوق ذرائع کے مطابق گذشتہ چند روز کے دوران سپین بولدک کے راستے پاکستانی روپے افغانستان کے صوبوں کندھار، فراہ، اورزگان اور ہلمند کے مختلف اضلاع میں منتقل کیا گیا ہے، اور کندھار کے صرافی مارکیٹ میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان کے میزان بینک سے 750 لاکھ پاکستانی روپے لائے گئے ہیں۔

دوسری جانب اسلامک بینک آف افغانستان کے سربراہ سید موسی کلیم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ افغانستان کا مالیاتی شعبہ بحران کی زد میں ہے اور بینکنگ کا نظام تباہی کا شکار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں بینک کوئی اور خدمات سرانجام نہیں دے بلکہ وہاں سے لوگ اپنا پیسہ نکال رہے ہیں ۔

طالبان کی جانب سے معاشی ماہرین کے نہ ہونے کے سبب انہیں اپنے ملک کی مالیاتی بحران پہ قابو پانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔