افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے – این ڈی پی

453

افغانستان میں موجود بلوچ پناہ گزینوں کو بڑی تعداد میں مالی اور جانی خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کا معاملہ بگڑتا جا رہا ہے ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات ایک دفعہ پھر سر اٹھا چکے ہیں۔  سی ٹی ڈی کی جانب سے ہونے والے نام نہاد فیک اکاونٹر میں قتل ہونے والے افراد کے حوالے سے نوٹس لے کر نئے تعینات ہونے والے آئی جی پولیس سمیت سب ذمہ داراں کو عدالت میں طلب کیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی آرگنائزر رشید کریم بلوچ دیگر نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال خاص کر افغانستان کی صورتحال پوری دنیا سمیت خاص کر سینٹرل ایشیاء کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ افغانستان میں بدلتی سیاسی و سماجی تبدیلی نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے ہر طرف ایک غیر یقینی اور خوف کی فضاء پائی جاتی ہے۔ اس وقت افغانستان کے موجودہ صورتحال کی وجہ سے ہمسایہ ممالک سمیت بلوچ جیسے محکوم و مظلوم قوم کیلئے ایک خطرے کی گھڑی سے کم نہیں ہے۔ بلوچستان کا افغانستان کے ساتھ طویل سرحد رکھنے کی وجہ سے اس بڑی تبدیلی سے اثر انداز ہونا یقینی ہے، افغانستان سے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کی بلوچستان میں ہجرت کرنے کی وجہ سے بلوچستان میں ڈیموگرافک تبدیلی کا خطرہ موجود ہے اور کوئٹہ جیسا کم رقبہ رکھنے والا شہر اس تبدیلی کا مرکز سمجھا جا رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں ہجرت کرنے والے افغان مہاجرین کو عالمی قوانین کے تحت انہیں صرف مہاجرین کیمپوںن تک محدود کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ شناخت رکھنے کیلئے مہاجر کارڈ کا اجراء کرکے بطور مہاجر ان کی شناخت کو برقرار رکھا جائے۔

رہنماوں نے کہا کہ بحیثیت بلوچ ہمارے لئے سب بڑی لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بلوچستان ایک جنگ ذدہ اور شورش ذدہ علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خاندان ہجرت کرکے اپنے ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزیں کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن خصوصا افغانستان میں بدلتی سیاسی اور سماجی صورت حال کی وجہ سے افغانستان میں موجود بلوچ پناہ گزینوں کو بڑی تعداد میں مالی اور جانی خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہماری شنید میں آیا ہے کہ افغانستان میں موجود بہت سے بلوچ مہاجرین کے گھروں پر حملہ کرکے ان کو مالی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ لہٰذا ہم UNHCR سمیت اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں موجود بلوچ پناہ گزینوں کے حفاظت کی ذمہ داری اٹھائیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام پارٹیوں خصوصا بلوچ سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر یکجاہ ہوکر آواز بلند کریں۔ تاکہ بلوچ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہے وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں امن و امان کا معاملہ بگڑتا جا رہا ہے ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات ایک دفعہ پھر سر اٹھا چکے ہیں۔ بالعموم بلوچستان کے تمام اضلاع اور بالخصوص ضلع پنجگور اس وقت قتل و غارت گری کا گڑھ بن چکی ہے۔ صرف پنجگور میں پچھلے مہینے درجن بھر افراد کو مختلف طریقوں سے ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کچھ دن پہلے چتکان میں جلیل سنجرانی اور اس کے ساتھی علاؤ الدین نامی شخص کو گولیوں سے چلنی کیا گیا، اور چند دن پہلے ایک گھر کی چارد و چار دیواری کو پامال کرکے ایک ہی خاندان کے تین افراد 2 بھائی اور انکے والد کو قتل کیا گیا اور اس سے پہلے صغیر نامی کاروباری شخصیت کو دوستوں کے ساتھ ٹارگٹ کیا گیا جس میں صغیر بلوچ نامی شخص جان کی بازی ہار گئے اور اس کے باقی تین دوست زخمی ہوئے۔ قدیر خلیل کا واقعہ بھی دل دہلانے دینے والا واقعہ تھا جب ایک معصوم بچے کو درندگی اور بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سمجھتی ہے کہ شہریوں کی حفاظت میں ریاست مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی اپنا کرداد ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں لہذا عوام کو چاہیے کہ ان تمام تر صورتحال کو مد نظر کر ان ظلم اور ناانصافی کے خلاف باہر نکل کر آواز بلند کرے۔

رہنماوں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپکی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں وہ ہے لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا مسئلہ گمبھیر مسئلہ ہے جس پر سیاسی، صحافتی اور سماجی کارکن، سوشل ایکٹوسٹ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو بولنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ حالیہ وقتوں میں پہ در پہ تسلسل کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں چھاپہ مار کر اجتماعی صورت میں لاپتہ کیا جاتا ہے اسی طرح گذشتہ ہفتے کوئٹہ کلی قمبرانی سے ایک شادی کی تقریب میں چھاپہ لگا کر ایک ایڈونچر گروپ ”مرید ایڈونچرز” کے نام سے سب ہی واقف ہوں گے جس کا ایک کوہ پیمان منصور قمبرانی بھی چند ماہ پہلے جبری گمشدگی کا شکار ہو کر رہا ہوچکا تھا اور ایک دفعہ پھر منصور قمبرانی سمیت اسی گروپ کے تقریبا 8 ایڈوینچر دوبارہ جبری طور پر گمشدہ کر دیے گئے ہیں، البتہ دو دن پہلے ان کو بازیاب کیا گیا لیکن ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان اداروں کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر لوگوں کو بنا ثبوت کے اٹھا کر غائب کر دیں اور کچھ دن اپنے پاس بند کرکے پھر چھوڑ دیں۔ اسکے علاوہ مشکے میں بھی ایک علاقے سے کئی افراد کے اغوا ہونے کے شکایت بھی موصول ہو رہی ہے۔ جبری طورپر گمشدہ کرنے کی اجازت دنیا میں کوئی بھی قانون نہیں دیتا اور خود ریاست کا آئین بھی اس سے روکتا ہے لہٰذا ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی اداروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ جبری طور پر لاپتہ کرنے کی پالیسی ایک غیر انسانی فعل ہے لہٰذا ان اداروں کو اس طرح کے حرکات سے باز آنا چاہیے بصورت دیگر اس کے بہت خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی مہینوں سے سی ٹی ڈی کی جانب سے فیک انکاؤنٹر میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کو مار کر اور اکثریت کو لا وارث اور نامعوم قرار دے کر دشت جیسے ویرانوں میں دفنایا جا رہا ہے حالیہ دو مہینے کے اندر جتنے بھی انکاونٹر ہوئے ہیں ان میں اکثریت لاپتہ افراد کے ہیں جن کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ثبوت لواحقین سمیت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بار بار میڈیا میں پیش کی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان تمام تر صورتحال میں سیاسی پارٹیوں سمیت انسانی حقوق کے ادارے اور عدالت عالیہ خاموش ہے حالانکہ عدالت کو چاہیے کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے ہونے والے نام نہاد فیک اکاونٹر میں قتل ہونے والے افراد کے حوالے سے نوٹس لے کر نئے تعینات ہونے والے آئی جی پولیس سمیت سب ذمہ داراں کو عدالت میں طلب کرکے ان سے پوچھ گچھ کرے۔ کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب سے یہ نئے آئی جی پولیس تعینات ہوئی تب سے فیک انکاؤنٹر میں بڑی تیزی لائی گئی ہے۔ اور ہم سمجھتے یہ سارے حربے بلوچ کش پالیسیوں کا تسلسل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بلوچستان میں تعلیم بحرانی کیفیت اختیار کر چکی ہے آئے روز ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ بلوچستان کے طلبہ اپنی حقوق اور نا انصافی کے خلاف احتجاج نہ کر رہے ہوں۔ کبھی کبھار حکومت کی جانب سے ان معصوم طلبہ کو اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے کی پاداش میں لاٹھی چارج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے حالیہ دنوں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی طلبہ کی جانب سے انٹری ٹیسٹ میں پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے ہونے والے بے ضاطگیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے لاٹھی چارج کرکے طلبہ کو گرفتار کیا گیا، اس گنوانے اور دہشت گردانہ عمل کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بھر پور مذمت کرتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی طلبہ کی جانب سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی حمایت کرکے ان تمام مطالبات کو جائز اور حق سمجھ کر ان کی حمایت کرتی ہے۔اور ہم احتجاج کرنے والے طلبہ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ہر فورم پر ہر جگہ آپ طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔