کابل میں طالبان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے افغان صحافیوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
دو افغان صحافیوں کو بدھ کے روز احتجاجی مظاہرے سے پکڑ کر پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا، جہاں انہیں زد و کوب اور بجلی کی تاروں سے مارا پیٹا گیا۔
ایک متاثرہ فوٹوگرافر صحافی کے مطابق ایک طالب جنگجو نے انہیں سر پر لاتیں ماریں اور ان کے چہرے کو اپنے پاؤں سے کچل دیا۔
صحافیوں پر تشدد کے واقعے پر طالبان نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ طالبان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے باوجود مخالفین کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ طالبان نے ایسے تمام مظاہروں کو غیر قانونی قرار دے دیا، جن کی وزارت انصاف سے اجازت نہ لی گئی ہو۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز کابل میں پاکستانی ایمبیسی کے باہر ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔
اس مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے طالبان انتظامیہ کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی تھی جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
مظاہرین پاکستان کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے اور یہ الزام عائد کر رہے تھے کہ کابل پر افغان طالبان کے قبضے میں پاکستان کا بنیادی کردار ہے
طالبان کے خلاف مزاحمت کے اظہار کے لیے افغان عوام کی بڑی تعداد نے 7 ستمبر کے روز کابل میں کم از کم تین ریلیاں نکالیں جو طالبان کے اقتدار کے پچھلے دور میں ناقابل تصور کی جاتی تھیں کیونکہ تب ایسے باغیوں کو سرعام پھانسی دے دی جاتی تھی اور ان کی لاشیں چوراہوں پر ٹنگی ہوئی نظر آتی تھیں۔
سات ستمبر کے روز کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر بھی افغان عوام کی ایک بڑی تعداد نے حتجاجی مظاہرہ کیا اور پاکستان کو افغانستان پر دوبارہ قابض ہونے کا ذمہ دار قرار دیا۔
اس احتجاج میں شریک سارہ فاطمہ نامی خاتون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان خواتین چاہتی ہیں کہ ان کا ملک آزاد ہو، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک دوبارہ تعمیر کیا جائے، ہم تھک چکے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہرے میں سینکڑوں خواتین نے بھی شرکت کی۔
25 سالہ سارہ فاطمہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام معمول کی زندگی گزاریں، ہم آخر کب تک اس حالت میں رہیں گے؟ اس موقع پر مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔