بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں اتوار کے روز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا –
احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین، بچوں اور نوجوانوں نے لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھا کر انہیں بازیاب کرنے کا مطالبہ کیا –
مظاہرہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، بزرگ سیاسی رہنماء ڈاکٹر عبدالحی بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ایڈووکیٹ خالدہ قاضی، بی ایس او کے چیئرمین زبیر بلوچ سمیت لاپتہ افراد کی لواحقین اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی-
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مقررین نے گذشتہ دنوں کراچی کے علاقے نیول کالونی میں لاپتہ راشد حسین کے رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپہ، والدین پر تشدد اور بہنوئی کی جبری گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست راشد حسین کی بوڑھی والدہ کو انصاف دلانے کی بجائے اس پر تشدد کرتی ہے جو بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران راشد حسین کی بوڑھے والد اور 14سالہ بھتیجے کو ریاستی ادارے اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں سخت تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا اور بعدازاں راشد حسین کی بہنوئی کو لاپتہ کیا گیا –
انہوں نے کہا کہ یہ سب حرکتیں راشد حسین کی کیس سے دستبرداری کے لیے کیے جارہے ہیں اگر ریاست راشد حسین کی جبری گمشدگی سے انکاری ہے تو پھر ایسا عمل کیوں کررہا ہے؟
مقررین نے کہا کہ ریاست بلوچستان میں اپنے بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہے –
انہوں نے کہا کہ ریاست ایک طرف مزکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف وہ لوگوں کو لاپتہ کررہا ہے –
مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جبری گمشدگیوں کا شکار بنایا گیا اور اب سلسلہ سندھ، خیبر پختونخواہ تک پھیل چکا ہے –
احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ نصیب اللہ بادینی کی ہمیشرہ بھی شریک تھی اس موقع پر انہوں نے ایک بار پھر ریاستی اداروں سے اپنے بھائی کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرا بھائی اس ریاست کا مجرم ہے تو انہیں اپنے عدالتوں میں پیش کرکے سزا دے –
مظاہرین نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے لاپتہ طالب علم رہنماء زاکر مجید، زاہد کرد، شبیر بلوچ، ڈاکٹر دین محمد اور ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا –
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں لاپتہ ہونے والے علی جان بلوچ آج بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ہے –
دریں اثناء راشد حسین کی رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپہ اور والدین پر تشدد کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کی طرف سے ایک کمپئین کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر مختلف صارفین نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین پر تشدد، گھروں پر چھاپے اس طرح کے عمل سے ریاست لوگوں اپنے پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد سے دستبردار نہیں کرسکتا ہے –