وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کا بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4424 دن مکمل ہوگئے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اور حب چوکی سے سیاسی و سماجی شخصیات نے کیمپ کا دورہ کیا –
کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست بلوچستان بھر میں بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور انہیں قتل کرکے اجتماعی قبروں کے پالیسی پر عمل پیرا ہے بلوچستان بھر سے سیاسی کارکنان و عام بلوچ عوام کی جبری گمشدگی کے تسلسل برقرار ہین۔ فورسز اور اس کے لوکل ڈیتھ اسکواڈ سمیت سی ٹی ڈی اس انسانیت سوز عمل میں شامل ہیں-
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے پچاس ہزار سے زائد افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں ان میں سے کئی افراد کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان سمیت کراچی کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں حالیہ دنوں میں سی ٹی ڈی کے ذریعے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے دو مہینے میں سی ٹی ڈی نے 30 سے زائد افراد کو مقابلوں میں قتل کرنے کا دعوا کیا تھا اب ظاہر ہورہا ہے کہ یے تمام افراد پہلے سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے مختلف اوقات میں ملنے والے نامعلوم لاشوں سے ہمارے اس خدشہ کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ یہ وہ تمام لاپتہ افراد ہیں جن کی شناخت ممکن نہیں حالیہ دنوں میں ایسے کئی واقعات میں لاپتہ افراد کو قتل کرکے بغیر شناخت کے نامعلوم قبرستانوں میں دفن کردیا گیا ہے اور اس عمل کو ریاست پاکستان اپنے اداروں کے ذریعے سر انجام دے رہے ہیں-
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان کے جانب سے یہی رویہ بنگلہ دیش میں اپنایا گیا تھا ہزاروں بنگالی کارکنان کو حراست بعد قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا تھا آج یہی پالیسی پاکستان بلوچستان میں دہرا رہا ہے –