کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو آج 4409 دن مکمل ہوگے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنماء محمد یحی، محمد اسلم بنگلزئی، سلطان اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے کیمپ آ کر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جن رہنماؤں نے سیاست میں حصہ لیا اور تاریخی کردار ادا کیا اسے تاریخ فراموش نہیں کر سکے گی ان لوگوں نے سیاست میں اس وقت قدم رکھا تھا جب کلی کیمپ کی تنگ و تاریک کو کوٹھڑیاں تھیں، گولیاں تھیں، عمر قید تھی، جلا وطنی تھی اور بلوچستان نہ جانے کتنے نشیب فراز سے گزر کر آج سر فراز ہوا ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بے شمار بلوچوں اس راہ میں قربان ہو گئے نہ جانے کتنے گمنام بلوچوں کا لہو اس میں شامل ہے بلوچستان آگ اور خون سے گزرا ہے اور آج بھی اسکی تپش محسوس ہوتی ہے آج بھی کہیں کہیں ہمیں سرخ دھبے نظر آتے ہیں پہاڑوں ویرانوں میں خون کی بو آ رہی ہیں نا جانے کتنے نوجوان خاک نشین ہوگئے اور ہونگے، کچھ نوجوانوں کی اجتماعی قبروں سے خون کی خوشبو کی مہک آرہی ہے اس امید اور اس کے بعد صحراؤں اور پہاڑوں کے دامن میں گل لالہ ان کی کہانیاں بیان کرینگے اور ان کی گور و کفن روحیں صحراؤں پہاڑوں میں بٹھکتی ہوئی ہوگی اور دھیکتی ہوگی کہ بلوچستان اب کہا جاکر ٹھہر گیا ہے پہاڑو کے دامن میں ان کے پھٹے ہوئے گدانوں میں خوشیاں جھلملاتی ہوئی اتریں ہونگے۔ ان کی مائیں بہنے اب بھی صاف پانی کی تلاش میں چشمو اور تالابو کا رخ کرتی ہوگی نا جانے کتنے سہانے خواب لئیے دنیا سے کوج کر گئے ہوں مسرتیں اور آرزوئیں نا تمام رہ گئی ہونگے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ بلوچوں نے اپنے خون سے ایک نئی تاریخ لکھ دی اور اب تک انکا خون صحرا بہ صحرا پکارتا رہے گا اور قاتلوں سے حساب طلب کرتا رہے گا انکی بے چین روح بلند و بالا پہاڑوں میں بٹھکتی رہے گی اور بد قسمت بلوچستان کو بے چین کئیے رکھے گی بلوچوں نے اپنی سیاست سے حیرت انگیز اور پر امن جد وجہد سے ایک داستان رقم کر دی ہے۔