وطن کی دفاع میں جان نثار، شہید تابش جان
تحریر:کوہ زاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مجھے اپنی زندگی میں بہت سے صدمے پہنچے ہیں لیکن آج بمورخہ 29 جولائی، 2021 کو جب شہید تابش عرف ریحان جان کی شہادت کی خبر کا صدمہ مجھے پہنچا تو یہ میری زندگی کا بدترین اور سب سے زیادہ درد ناک صدمہ تھا۔ کہتے ہیں جب انسان زندہ ہے تو اس کی اتنی قدر نہیں کی جاتی جتنا مرنے کے بعد کی جاتی ہے۔ مرنے کے بعد اس کی بیشتر خامیوں، غلط کرتوت اور کارناموں کو نظر انداز کر کے اس کی ہر معمولی اچھائی کو یاد کر کے اس کی قدر کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے لیکن، تابش جان اپنی عام زندگی میں ایک بہت ہی خوش مزاج، لچکدار، ایماندار و دیانت دار اور سنجیدہ انسان تھے۔ تابش جان اپنے حیات میں بھی لوگوں کے پیارے و دل عزیز اور محترم و قابل قدر تھے۔
شہید تابش جان خاص طور پر اپنے قومی مقصد اور فرائض کی طرف بھی ایک انتہائی مخلص، سنجیدہ اور ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ قومی مقصد سے بہت لگن رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ ساتھیوں کے مجلس میں بیٹھ کر اپنے اور دوسرے متعلقہ ساتھیوں کے قومی مقصد کے حصول کیلئے انداز فکر، عمل و نظریہ پہ تنقیدی نقطہ نظر رکھتے تھے جس سے اس کا ہمیشہ نیت و ارادہ قومی تحریک کو کامیابی کی طرف دھکیلنا تھا اور قومی مقصد جو قومی آزادی ہے کے حصول کیلئے بہتر اور موثر طریقے اور اقدامات اختیار کرنے کیلئے فکرمند تھے۔ تابش جان اپنے قومی مقصد کی طرف ان کمترین مخلص لوگوں میں سے تھے جن کی اخلاص کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اگرچہ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اس کی سوچ و فکر اور شعور ایک اعلیٰ پڑھے لکھے شخص سے بھی زیادہ اور وسیع تھا۔ آج کل پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ لوگ، خاص طور پر بلوچ، ملتے ہیں جو سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی ان کی علم انہیں حالات اور نظام سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں کرتا اور صرف اپنے ذاتی خواہشات اور مفادات پورے کرنے میں مگن رہتے ہیں اور محض اپنی زندگی سنوارنے میں لگے رہتے ہیں لیکن، تابش جان کی فکر و نظریے نے تعلیم یافتہ یا پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود بھی اسے اپنے تمام زاتی و انفرادی تقاضے، خواہشات اور مفادات کے ساتھ بلوچ قومی تحریک آذادی پر سمجھوتہ کروایا تھا اور وہ اخلاص کے ساتھ کئی برسوں تک اپنے قومی فرائض انجام دینے میں سرگرم تھا۔
خوف اور گھبراہٹ انسان کی فطری جزبات ہو سکتی ہیں لیکن، تابش جان وہ شخص تھا جس میں خوف اور گھبراہٹ نام کی استعداد نہیں ملتی تھی۔ وہ ہمیشہ کسی مقصد کو تکمیل دینے جاتے تو وہ خوف اور گھبراہٹ سے دور نظر آتے۔ دشمن کا سینکڑوں کی تعداد میں سامنے ہونے کے باوجود بھی وہ ایسے ڈٹے رہتے گویا وہ کوئی آسان کھیل کھیل رہا ہو۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ اگر دشمن کے ساتھ کوئی مقابلہ ہو اور دشمن ہم پر غالب آئے تو دشمن کے ساتھ آخری دم تک مقابلہ کر کے اپنا آخری گولی اپنے سینے یا ماتھے میں اتار دونگا لیکن دشمن کے ہاتھوں دستبردار ہونا قبول نہیں کرونگا۔ چونکہ ایک زمہ دار مخلص و دیانتدار گوریلا جہدکار کے پاس اپنے ادارے یا تنظیم کے بہت سے راز ہوتے ہیں اس لئے اس نے اس کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مقابلے یا دشمن کی طرف سے ٹریپ کے موقع پر خود کو خود مارنا پڑتا ہے۔ اسی طرح تابش جان نے وہی کیا جو ایک زمہ دار مخلص و دیانت دار گوریلا جہدکار کرتا ہے۔
جی ہاں! شہید تابش جان نے بہادری کی مثال قائم کر کے دشمن کے ساتھ مقابلے میں غالبا دشمن کا غالب آنے کی وجہ سے ایک بار پھر آخری گولی کا فلسفہ زندہ رکھتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں دستبردار ہونے کے بجائے خود کو ماتھے پہ گولی مارنے کو ترجیح دیا۔ یہ عمل تابش جان کی اپنے مقصد کی طرف نہ صرف اخلاص اور دیانتداری کا ثبوت ہے بلکہ دنیا کےلئے یہ پیغام ہے کہ بلوچ اپنی سرزمین بلوچستان کی دفاع اور آزادی کیلئے اپنا سر دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔
شہید تابش جان بہت ہی خوش نصیب ہیں جو اس میں وطن کیلئے، اپنے قوم کیلئے اور بلوچ کاز کےلئے قربانی دینے کا جذبہ تھا۔ اپنی قوم اور وطن کیلئے قربان ہو کر امر ہونا تابش جان جیسوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ انسان کسی اجتماعی مقصد کیلئے برسرپیکار ہو کر اس کیلئے جان نثار ہو تو وہی زندہ انسان کہلاتا ہے۔ جو انسان صرف اپنے بارے میں سوچ کر زندگی گزارے تو وہ ہر پہلو میں ایک مردہ شخص ہے۔
شہید تابش جان ان شخصیات میں سے ہے جنہوں نے اپنے اصل و حقیقی مقصد کو سمجھ کر خود میں اجتماعی سوچ پیدا کر کے اس میں اپنے قومی فرائض انجام دیئے۔ زندگی کا مقصد بھی تو یہی ہے کہ دوسرے فرد یا آنے والے نسل کی خوشحالی کےلئے خود کو قربان کرنا یا داو پر لگانا۔ اسی طرح شہید تابش جان نے بھی اپنی قوم اور زمین کی آزادی کیلئے اپنی جان داو پر لگا کر نہ صرف بلوچ قومی تاریخ اور شہدائے بلوچستان کے فہرست میں امر ہوئے بلکہ ہمارے (بلوچ قوم کے) اور آنے والے نسل کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے جگہ بنا لی۔ شہید تابش عرف ریحان جان کو تمام آزادی پسند شہدا کے ہمراہ سرخ سلام۔ شہید تابش جان ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ رخصت اف کنا ارواہ اوارن۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں