جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے مناسبت سے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سجاگی فورم، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹی, ایچ آر سی پی، اور وائس آف شیعہ مسنگ پرسنز کی جانب سے ایک پرامن احتجاجی ریلی گورا قبرستان سے کراچی پریس کلب تک نکالی گئی، جس کی قیادت ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے شریک چیئرپرسن اسد بٹ، قاضی خضر، قومی دانشور تاج جویو، وی ایم پی سندھ کی کوآرڈینیٹر سورٹھ لوھار، سندھ سجاگی فورم کے مرکزی جنرل سیکریٹری ایڈووکیٹ محب آزاد، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر عبدالوھاب بلوچ، بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ، آمنہ بلوچ، شیعہ مسنگ پرسنز کے رہنما راشد رضوی کر رہے تھے-
ریلی میں جبری گمشدہ شہریوں کے اہلخانہ، سیاسی ، سماجی انسانی حقوق اور محنت کش تنظیموں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی-
ریلی کے شرکاء جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور اس گھناؤنے جرم میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا دینے کے مطالبات پر مبنی بینرز اٹھائے ہوئے اپنے پیاروں کی رہائی کے نعرے لگا رہے تھے-
ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ شہریوں کی تسلسل کے ساتھ جاری جبری گمشدگیاں جمہوری اور آئینی اداروں کی بے بسی اور لاچاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک میں پارلیمنٹ کی موجودگی اور آئین کے تحت قائم عدالتی نظام کے باوجود سیاسی و سماجی کارکنوں کو بنا کسی جرم کے غائب کیا جاتا ہے لیکن منتخب نمائندے اور عدلیہ غیر آئینی اور غیرقانونی کارروائیوں میں ملوث افراد اور ان کے پشت پناہی کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں شہری جبری طور پر لاپتہ کئے جاچکے اور ان کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں-
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا آئین شہریوں کو اختلاف رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے لیکن اس آئینی حق کے استعمال کو سنگین جرم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ریاستی ادارے خود کو آئین اور قانون سے بالا اور عدالتوں کی دست رس سے محفوظ تصور کرتے ہیں۔ ان کی بے خوفی کا عالم یہ ہے کہ وہ دن دھاڑے شہریوں کو اغوا کرتے ہیں اور اعلانیہ کہتے ہیں کہ اغوا شدہ فرد ان کے پاس نہیں اور عدالتیں ہیں کہ ان قوتوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہیں۔ ان میں اتنی جرات اور حوصلہ بھی نہیں کہ جبری گمشدگی سے رہائی پانے والوں سے پوچھ سکیں کہ ان کے اغوا کار کون تھے-
مقررین نے اپنی تقاریر میں اس امر کی نشان دہی کی کہ ایک ایسی ریاست جس میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے جمہوری ماحول کو طاقت کے زور پر قبرستان کی سی خاموشی میں تبدیل کرنے کا گھناؤنا عمل جاری رہا تو ترقی اور خوشحالی کے تمام راستے نہ صرف مسدود ہو جائیں گے بلکہ اس کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہو کر رہ جائیں گی-
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اسے قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے اور ملزمان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا آئینی اور قانونی حق مہیا کیا جائے۔ اگر ریاست شہریوں کی زندگی کا تحفظ اور آزادی سے رائے کے اظہار کا موقع فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو ایک ایسی سماجی و سیاسی بے چینی اور افراتفری جنم لیتی جس کے خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔ موجودہ حالات تیزی سے اسی جانب جاتے دیکھائی دے رہےہیں-
ریلی میں مطالبہ کیا گیا کہ جبری لاپتہ کئے گئے تمام افراد کو فی الفور رہا کیا جائے، اس جرم کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزادی جائے۔ اگر کسی فرد پر کوئی الزام ہے اسے قانون کے مطابق عدالتوں میں ثابت کیا جائے-