ارجمندی کو اگست 2009 میں پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں نے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ بلوچستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جا رہا تھا۔ اس کا ٹھکانہ نامعلوم رہا اور اس مدت کے دوران اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
2010 میں پاکستانی حکام نے اسلام آباد میں ناروے کے سفارت خانے سے تصدیق کی کہ ارجمندی ان کی تحویل میں ہے لیکن اسے رہا کرنے سے انکار کر دیا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ احساس ارجمندی کا مقدمہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان جیسی جابرانہ ریاست جبری طور پر غائب ہو جاتی ہے اور بہت سے معاملات میں لوگوں کو ان کی سیاسی سرگرمیوں اور عقائد کی بنا پر ماورائے عدالت قتل کرتی ہے۔
بلوچ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہزاروں بلوچ سماجی و سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو پاکستان میں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے
بلوچ سیکورٹی فورسز کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے معتبر شواہد کے باوجود عالمی برادری نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ پاکستانی حکام انسانیت کے خلاف اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کی شناخت اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔