قرآن، قسم اور آزادی – یوسف بلوچ

361

قرآن، قسم اور آزادی

تحریر:یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پڑھ کر انتہائی تعجب ہوا کہ اکیسویں صدی میں ترکمانستان جیسا ملک اپنے عوام کو انٹرنیٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے کے لیے قرآن مجید کو بطور مضبوط ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش میں ہے۔ترکمانستان کے شہری اگر انٹرنیٹ کی سہولیات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو قرآن پر قسم اٹھائیں کہ جو مواد ترکمانستان کی قومی سلامتی،حکومتی اور سیاسی مفادات کے خلاف ہوں انہیں رد کر دینا پڑے گا اور جو ویب سائیٹ بند کر دی گئی ہیں اُن کے لیے وی پی این کا استمعال نہیں کریں گے۔

تسّلی چاہتے ہیں تو ایران،جنوبی کوریا،چین،ایتھوپیا،سعودی عرب اور بحرین جیسے ترقی یافتہ و خوشحال ممالک کی طرف نظر دوڑائیں۔ یہ ایسے ممالک ہیں جو اکثر و بیشتر ترقی پذیر ہیں لیکن آزادیِ اظہارِ رائے پر پابندی نے یہاں کی عوام کو تنّزلی کی آڑ میں لے رکھا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے بنیادی ستونوں سے ہٹ کر کوئی انجان فیصلہ کرے تو تاریخ کی گرفت انہیں کبھی بھی آزاد و خود مختار نہیں بنا سکتی۔

دراصل جمہوری ممالک بھی آزادیِ اظہارِ رائے کو دبانے کی ضد کر رہے ہیں۔ انڈیا پر نظر وڑائیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، چین بھی جمہوری ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی چین کی ہے۔ ایران کو دیکھ لیں،کیوبا پر اپنی نظر مضبوط رکھیں۔
کیوبا کی آزادی آمریت کو زندہ لاش بننے کی ایک مثال ہے۔ کیوبا کی آزادی کے سب سے بڑے رہنما چی گویرا آج بھی گوریلہ سوچ رکھنے والے افراد اور آمریت کو زندہ دفن کرنے والوں کے لیے ایک مثال نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔

تعجب ہے کہ کیوبا بذاتِ خود جمہوریت،آزادیِ اظہارِ رائے آزاد ملک بن کر ایک مثال ضرور بنا تھا۔ اس کے برعکس آج کیوبا پھر غلامی کے زنجیروں میں جکڑ رہا ہے۔ آج کیوبا میں انسانی آزادی،انسانوں کی آواز برائے نام ہو چکی ہے۔کمیونزم بلاک میں ایک آزاد کیوبا آمروں کی سوچ میں تڑپ رہا ہے۔
اکیسویں صدی کے حکمران بھی عجیب ہیں،آمرانہ پیروکار ضرور ہیں لیکن مثالیں یورپ کی دیتی ہیں۔کوئی ان سے یہ پوچھے کہ یورپ کیوں خوشحال ہے،ترقی پذیر ہے؟ اگر یہ اپنے غلطیوں کو چپھانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب نہیں دیتے وگرنہ یہ سب کو یاد رکھنا چائیے کہ یورپ کی خوشحالی اور ترقی پر آزاد میڈیا اور آزادیِ اظہارِ رائے کا بڑا اور مستحکم ہاتھ ہے۔

اگرچہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی کو حکومت بلواسطہ کنٹرول نہیں کر رہی مگر بلاواسطہ ضرور کر رہی۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک سوشل میڈیا وِنگ بنایا گیا ہے اور کسی بھی حکومتی عہدیدار،سول و ملٹری سربراہان پر تنقید ایک بڑا جرم بن چکی ہے،جس کی سزا جیل و جرمانہ سمیت تشدد اور موت بھی ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں میڈیا کی آزادی اگرچہ حکومت کی طرف سے یورپ سے زیادہ ہے لیکن بڑے معروف صحافیوں پر قدغن،ان پر حملے اور انہیں خوف ہ ہراس کرنا میڈیا کی یرغمالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آزادیِ اظہارِ رائے کی پامالی پر پاکستان اگرچہ قرآن کی قسم پر نہیں اترا ہے مگر وقت گواہی دے رہا ہے کہ اگر پاکستان میں قانون کی پامالی جاری رہی تو پاکستان کو کوئی بھی چین،بحرین،سعودی عرب،ہندوستان،جنوبی کوریا،ایتھوپیا،کیوبا اور ترکمانستان بننے سے نہیں روک سکتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں


کالم نگار کا تعارف
یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار و کم عمر طالب علم ہے۔ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں