ففتھ جنریشن وار فیئر-سلمان حمل

816

ففتھ جنریشن وار فیئر
تحریرسلمان حمل

کافی عرصے سے پاکستان میں میڈیا پرسنز سمیت سول اور فوجی اداروں کے سربراہان اپنے بیانوں اور مباحث میں ففتھ جنریشن وار فیئر کا استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کیا ہے اس سے کیا مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور یہ کب کیسے اور کن ذرائع سے استعمال کی جاسکتی ہے اور اس کے طریقہ کار کیا ہیں اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور سب سے اہم و بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا یہ ففتھ جنریشن وار فیئر ہم مظلوموں کیخلاف بھی استعمال کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر اس ففتھ جنریشن وار فیئر کو ریاست کی جانب سے استعمال کیا جارہا ہے تو ہم بحیثیت غلام اور مظلوم قوم کے اس ففتھ جنریشن وار فیئر سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا ففتھ جنریشن وار کیا ہے۔ ففتھ جنریشن وار اس غیر اعلانیہ جنگ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے دشمن ممالک میں افراتفری، معاشی بد حالی، کنفیوژن، اور فکری انتشار پیدا کرکے ملک کی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے اس عمل کو یا اس جنگ کو ففتھ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک سائبر وار بھی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ اس لڑائی میں قوموں کا مورال ڈاؤن کرنے اور قوموں کے درمیان انتشار و مایوسی پھیلانے کیلئے فیک آئی ڈیز نامعلوم اکاؤنٹس کے ذریعے ٹوئٹس، پوسٹ کرکے لوگوں کے درمیان لسانی و علاقائی خلیج کو گہرا کرنے کی سازش کرتے ہیں۔ ان ہی اکاؤنٹز کے ذریعے من گھڑت بیان، سچ کے نام پر جھوٹ ایڈیٹ شدہ تصاویر کو وائرل کرکے قوموں کو اصل و خاص سے دور رکھا جاتا ہے۔

اب ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئر کو سمجھنے کیلئے گزشتہ ماڈلز کے بارے میں سمجھنا ہوگا۔ کہ ان ماڈلز میں کس طرح جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ سب سے پہلے ہم فرسٹ جنریشن وار فیئر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ فرسٹ جنریشن وار فیئر کے بابت ہنگری کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق یہ جنگوں کی وہ شکل ہے جس میں بڑی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان جنگوں کو فری انڈسٹریل وارز بھی کہا گیا ہے۔ اس جنریشن میں فوج کے دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور انسانی قوت کو کامیابی کا منبع سمجھتے ہیں۔ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جتنی بڑی لشکر ہوگی اتنی بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ جنریشن سترھویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کی آخر تک چلتی رہی اور ان ہی اصولوں پر دنیا میں مختلف جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں۔

اب ہم آتے ہیں سیکنڈ جنریشن وار فیئر کی جانب۔ امریکی پروفیسر رابرٹ جے بنکر کی لکھی ہوئی ایک تحقیق کے مطابق سیکنڈ جنریشن وار فیئر میں ٹیکنالوجی کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا ہے یا یوں کہیں یہ ٹیکنالوجیوں کی جنگ ہے جس میں فوجی دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لی ہے اور ان جنگوں میں عددی اعتبار سے فوجی کم اور اسلحوں نے زیادہ کردار ادا کی ہے۔ جس میں رائفلیں، مشین گن توپیں وغیرہ شامل ہیں۔ جنگوں کا یہ جنریشن انیسویں صدی کے وسط میں جنریٹ ہوا ہے اور اب تک بھی کچھ جنگیں انہی اصولوں پر لڑی جاتی ہیں۔

اب تھرڈ وار جنریشن کے بابت بھی رابرٹ کے اسی تحقیقی مقالے کا مدد لیتے ہیں جس میں وہ لکھتا ہے کہ تھرڈ جنریشن وار فیئرز میں جنگیں آئیڈیاز یعنی خیالات کی بنیاد پر شروع ہوتی ہیں۔

پروفیسر رابرٹ کے مطابق اسی دور میں یعنی تھرڈ جنریشن وار فیئر کے دور میں جنگی چالوں کا استعمال عام ہوا ہے۔ ان کے مطابق ان جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن قوتوں کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے یا کچھ ایسی ہی جگہوں سے حملہ کیا جاتا ہے جس میں مخالف فریق کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے حملہ ہوا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک اور مقالے میں تھرڈ جنریشن وار فیئر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس جنریشن میں ایئرکرافٹس اور جنگی طیاروں کا استعمال بھی شروع کیا گیا ہے۔

اب اس جدید دور میں جو جنگیں لڑی جارہی ہیں ان جنگوں کو فورتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا گیا ہے۔ فورتھ جنریشن وار فیئر کے بابت مخلتف تحقیقی مقالے یہ کہتے ہیں کہ یہ اصطلاح سنہ 1989 کے بعد سے شروع ہوا ہے۔ اس جنریشن میں دھشت گردی کیخلاف کی جانے والی کاروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ رابرٹ بنکر اپنے مضمون میں اس جنریشن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آج کل جب فوجیں ایک آبادی والے علاقے پر حملہ آور ہوتی ہیں اور ان حملوں کو فورتھ جنریشن وار فیئر کہا جاتا ہے۔

مگر چند دیگر مقالوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنگ کے اس ماڈل پر بہت تنقید ہوئی ہے اور بعض جگہ جنگوں کے اس ماڈل پر یقین ہی نہیں کیا جاتا ہے۔

اگر رابرٹ بنکر کے کہے ہوئے کو درست مانا جائے تو اس وقت بلوچ آبادیاں پاکستانی فوج کے فورتھ جنریشن وار فیئر کے زد میں ہیں۔

اب آخر میں ہم اپنے اصل موضوع ففتھ جنریشن وار فیئر پر آتے ہیں جس کے بابت مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ پیپروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ماڈل ابھی اپنے ارتقائی مرحلے میں ہے یا ارتقائی مراحل سے گزر رہا اور ابھی تک اس ماڈل کو درست طور پر سکالرز کے سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔

تاہم دنیا بھر میں بعض ادارے، بالخصوص ملٹری امور سے وابستہ ادارے اس قسم کی مختلف اصلاحات استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مگر عام طور پر محققین یہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو دنیا بھر میں ملٹرائزڈ آپریشن یعنی فوجی تسلط کیخلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کو ففتھ جنریشن وار سے منسلک کیا جاتا ہے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو یہ جواز ملے کہ وہ سوشل میڈیا کے صارفین پر کڑی نظر رکھ سکیں اور ان کے خلاف قوانین بناسکیں اور اسی اصطلاح کو استعمال کرکے فوجیں ہر جگہ مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔

مگر اب ہم آتے ہیں بلوچستان کی جانب جہاں نہ کوئی سول حکومت ہے اور نہ ہی دیگر انتظامی معاملات سول اداروں کے ہاتھ میں ہیں نہ صرف بلوچستان میں بلکہ پورے پاکستان میں یہی صورتحال ہے۔ تو ایسے حالات میں فوج سوشل میڈیا کے توسط سے با آسانی کسی بھی مسئلے کو دبانے کی نہ صرف کوشش کرے گا بلکہ اظہار آزادی پر بھی پابندی عائد کرے گا۔ اور یہ سب کچھ ہمیں بلوچستان میں دیکھنے کو ملیں گے نہ وہاں آپ آزادی سے اپنا بات کرسکتے ہیں نہ ہی کسی مسئلے پر بول سکتے ہیں۔ مسئلوں کی نشاندہی اور ان پر بات کرنے کے پاداش میں بلوچستان سے ہزاروں لوگ آج تک لاپتہ ہیں۔

مگر اب یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج بلوچ آزادی پسند جہدکاروں کیخلاف سوشل میڈیا کی توسط سے ففتھ جنریشن وار لڑ رہا ہے۔ مختلف فیک آئی ڈیز اور چند مقامی برگشتوں سمیت آج کل آزادی ہی کی نام نہاد متوالے اسی توسط سے یعنی سوشل میڈیا کی توسط سے بلوچ سماج میں جھدکاروں کیخلاف انتشار پھیلانے کی کوششون میں مصروف عمل ہیں۔ اور جبکہ کچھ حقیقی جھدکار بھی جانے انجانے میں اپنے ہی خلاف اسی ففتھ جنریشن وار فیئر کا حصہ بن کر خود اپنے ہی پاؤں کو کاٹ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر غیر ضروری مباحثوں کا حصہ بن کمنٹس کی شکل میں اس پوسٹ کو پزیرائی دیتے ہیں یا شیئر اور لائک کرکے۔ اس ففتھ جنریشن وار سے بچنے کیلئے ضروری ہیکہ سوشل میڈیا پر نہ کسی سے سوال کریں نہ کسی کو جواب دیں بلکہ اپنے حقیقی مسائل فوجی آپریشنز، جبراً گرفتاری آزادی پسند تنظیموں کی کاروائیوں کی ویڈیوز، بیانات، شہدا کی تصاویر اور علمی مواد کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ دشمن کی جانب سے کیئے گئے وار پر آپ کا وار گراں گزرے۔ سوشل میڈیا کو محتاط اور بہتر و مثبت انداز سے استعمال کرکے ہی ہم ریاست کی ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور یہ مقابلہ ریاست کا بلوچ سرمچاروں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان سوشل میڈیا اکٹیوسٹ کے ساتھ ہے جو سوشل میڈیا میں ہمہ وقت اکٹیو ہیں۔ اگر کسی سے بندوق اٹھایا نہیں جاسکتا پہاڈوں پر نہیں جاسکتا۔ سوشل میڈیا کے توسط سے ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتا تو وہ برائے کرم خود اپنے ہی خلاف کی جانے والی ففتھ جنریشن وار کا حصہ نہ بنے یعنی کہ فضول کے ٹائم پاسی کے مباحثوں سے گریز کرے کیونکہ ان سے کوئی نتائج حاصل نہیں ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں