عورت کمزور کیوں سمجھی جاتی ہے؟
تحریر:آسیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سوال یہ اٹھتا ہے کہ عورت کمزور اور غیر مساوی حقدار کیوں سمجھی جاتی ہے؟
اکثر جب کبھی ہم اس بات پر غور کرتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں چاہے وہ سائنسی ہوں یا نفسیاتی اعتبار سے ہوں وہ یہ کہ عورت جسمانی قوت کم رکھتی ہے ، جلد اعتماد اور فیصلے کرتی ہے جو کہ بعد میں صیحح یا غلط ثابت ہوسکتے ہیں ۔اس پدرشاہی سماج میں عورت بوجھ سمجھی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔اصل میں جب کبھی ہم اِن چیزوں پر غور کرتے ہیں تو ہم بذاتِ خود اپنے آپ کو کمزور کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ہم میں سے بیشتر بلوچ عورتیں بشمول ِ خود اپنے تاریخ سے ناواقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ تاریخ کسی بھی سماج کا آئینہ ہوتی ہے جو اس سماج کے رسم و رواج،رہن سہن اور اس سماج کے سوچنے کی فطرت پر گہری اثر رکھتی ہے۔ بلوچ عورتوں کو خود کی پہچان جاننے کیلئے تاریخ کا مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے۔
عورت معاشرے کی روح ہوتی ہے ، اِنہی سے سماج میں بہترین نسل جنم لیتی ہیں اور کسی بھی سماج کے نوجوانوں کی شخصیاتی پہچان کو قائم کرنے میں عورت کا ایک بہت بڑا کِردار ہوتا ہے۔لیکن اس کے برعکس معاشرے میں ہمیشہ منفی رحجانات پھیلا کر ہمیں اندرونی طور پر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے ہمارے ذہن میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں۔ہم خود کو کمزور سمجھنے لگتے ہیں،ہم یہی سوچتے ہیں کہ ہم لڑکوں کی طرح معاشرے میں کچھ نہیں کرسکتے اور یہی منفی خیالات ہمیں اندر سے توڑتی رہتی ہیں۔جس کا سب سے بڑا زمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ ہم خود اپنے تاریخ سے ناواقف ہیں۔
جب ہم بلوچ سماج کی ارتقائی عمل کو دیکھتے ہیں تو بلوچ شیرزالوں کی بہت سی تاریخی مثالیں ملتی ہیں، جہاں پدرشاہی سماج کے ہوتے ہوئے بلوچ قوم کے عظیم ماؤں نے اپنی شناخت کو قائم رکھا۔ آج اِنہی شیرزالوں پر پوری قوم فخر کرتی ہے۔اگر بلوچ عورتوں کی تاریخ میں حقائق اور بہادری کی داستانوں کو پڑھیں تو وہاں ہمیں بہت ساری بہادری کی اعلی مثالیں ملتی ہیں ۔
بی بی بانڑی
جب 1555 میں میر چاکر اعظم کی لشکر مغلوں کا ساتھ دینے کیلئے شہنشاہ سوری کے خلاف سرہند کے مقام پر جنگ لڑتے ہیں ۔ دشمن کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ میدان اُن کے تلواروں اور گھوڑوں کے سائے سے ڈھک جاتا ہے۔ جب توپ گِرتے ہیں تو بلیدی پسپا ہونے لگتے ہیں اور بہت سے بھاگ بھی جاتے ہیں۔محاصرہ ٹوٹ جاتا ہے اور دہلی والے تیزی سے آگے کی جانب آنے لگتے ہیں تب ہی میر چاکر اعظم کی ہمشیرہ بی بی بانڑی جو اس جنگ میں شامل ہوتی ہے تو جم کر کھڑے ہوکر صاف صاف بلند آواز میں بولنے لگتی ہے کہ “کہ بلوچ بہادروں! تمھاری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بیویوں اور ملک کی عزت اور غیرت خطرے میں ہے۔میں تمھیں خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ایک پھانسی مُٹھی میں لیکر پھینک دو۔سب کچھ ہار جاؤ یا سب کچھ جیت جاؤ ” بی بی بانڑی کے اس للکار نے بلوچ لشکر میں ایک نئ روح پھونک دی اور بلوچ ایسے ڈٹ گئے کہ کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔اس سے ہمیں معلوم ہوتا کہ بلوچ عورتیں میدانِ جنگ ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو کسی سے کم نہیں ہیں۔ہمیشہ بہادری کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں۔لیکن بد قسمتی سے آج کے اِس دور میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح گل بی بی بلوچ دیدہ دلیری کے ساتھ جنزل ڈایئر کو شکست سے دوچار کرتی ہے جب برطانوی فوجی جنرل ڈایئر کو معلوم ہوتی ہے کہ گل بی بی ایک عورت ہے تو اس کی بہادری سے متاثر ہوکر مزذکرات یعنی ملنے کیلئے راضی ہوجاتا ہے۔
اسی طرح 1673 تک میر احمد خان نے سبی و کچھی پر چودہ حملے کئے لیکن ہر بار شکست کھا کر واپس لوٹے ۔انکی بہادر بہن بی بی بیبو اپنے بھائی کے پے در پے شکست پر بہت آزردہ رہتی تھی ۔لہذا انہوں نے باروزئیوں کے خلاف پندرھویں لڑائ کا بیڑہ خود اٹھا نے کی ٹھان لی ۔بھائی سے اجازت لے کر جنگ کی تیاریاں کرنے لگی ۔تو بیبو احمدخان کی لشکر تیار کر کے اپنی سربراہی میں جنگ کے میدان میں لے آئی ۔فوج لے کر قلات سے سیوی روانہ ہوئی ۔جس وقت بیبو سیوی پہنچیں تو سردار مرزاخان باروزئی ان کے مقابلے کےلئے نکلا۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں ۔بیبو مقابلے میں قتل ہوگئیں اور ان کی فوج کو شکست ہوگئی۔
بی بی بانو جو کہ میر احمد خان کی بیٹی اور میر ابراہیم نوشیروانی (جو باروزئیوں کے ساتھ سولہویں جنگ میں مارے گئے تھے)کی بیوی تھی اپنے خاندان کا انتقام لینے کےلئے اپنے والد کے ساتھ باروزئیوں سے سترہوئیں لڑائی میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوئیں ۔اور مردانہ لباس پہن کر خان صاحب کے ہمرکاب رہی ۔میر زنگی خان ریئسانی جو میر احمد خان کی طرف سے متعین کر دہ گھوڑسوار ہر اول لشکر کا کمانڈرتھا۔ بی بی بانو کی رائے سے منتخب ہواتھا۔اس دفعہ لڑائی کی منصوبہ بندی بھی بی بی بانو نے کیا تھا۔ بی بی بانو پہلی مرتبہ لڑائی کے لئے میدان جنگ میں اتریں تھی لیکن اس نے اپنے بہادر اور مدبرّشوہر سے لڑائ جیتنے کے گر سیکھ رکھے تھے۔اس لئے اسے معلوم تھا کہ لڑائی کس طرح لڑی جاتی ہے۔لیکن میر احمد خان کو یہ معلوم نہیں تھا۔لہذا جب انہوں نے خان صاحب سے لڑائی پر چلنے کے لئے کہا تو وہ حیران رہ گئے۔ لیکن بی بی بانو نے خان صاحب کو لڑائی جیتنے کے دوچار گر بتائے تو وہ صرف خوش نہیں ہوئے بلکہ وعدہ کیا کہ وہ لڑائی میں بانو کے مشوروں پر عمل کرےگا ۔لہذا ایسا ہی ہوا تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس دفعہ بارزوئیوں کے ساتھ سترہویں لڑائی میں میراحمدخان محتاط ہوکر لڑا جلد بازی اور اشتعال کے بجائے تدبر اور موقع شناسی سے کام لیا اور بی بی بانو کے مشوروں پر عمل کے نتجیے میں جنگ جیت لیا۔ ہم اس سے اخذ کرسکتے ہیں کہ عورتیں کسی سے کم نہیں نا صرف دماغی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی۔ خاص طور پر بلوچ عورتیں جن کو میں زاتی طور پر دوسرے اقوام کے عورتوں سے زیادہ مظبوط سمجھتی ہوں ۔جس کے اسباب رہن سہن کےطریقے اور مختلف معاشرتی حالات بھی ہوسکتے ہیں۔ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ ہم تب تک کمزور نہیں ہوسکتے جب تک ہم دماغی طور ہر کمزور نہ ہوں۔
بی بی گنجان نے بھی تاریخ میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا۔
بی بی گنجان جو کہ میر محراب خان شہید کی زوجہ تھی اور دربار میں اُنکی مُشیرِ خاص بھی تھیں ۔جس وقت انگریزوں نے حملہ کیا۔تو بی بی گنجان محراب خان شہید کے ہمراہ مقابلے پر نکلیں۔اور اس وقت تک مقابلہ کیا جب تک توپوں نے فصیل کی دیواریں مسمار کردیں اور محراب خان کو شہید کردیا۔ آخرکار گنجان کو شکست ہوگئی ۔خان شہید ہوگئے تو اسے دفنانے کا کام مائی گنجان نے خود کیا۔
اگر ہم حانی کی داستان پڑھیں وہ 40سال تک انتظار کر تی ہیں۔
بلوچ معاشرے کی تاریخ میں عورت ہمیں ہر جگہ طاقتور نظر آتی ہے لیکن اب ایک پلان کے تحت بلوچ عورتوں کو معاشرے کے ہر ایک عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ عورت ایک ایسی طاقت ہے جو پورے قوم کو طاقت بخشتی ہے۔اگر بلوچ قومی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہر ادوار میں کریمہ جیسی ،بانڑی جیسی کردار زندہ ہوتے رہتے ہیں۔
ایک بلوچ عورت کے ناطے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے تاریخ کا مطالعہ کریں اور معاشرے کی بھلائی کیلئے ہر ایک عمل میں اپنےقوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں