افغان صدر غنی نے اپنے بیان میں طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ افغان ہیں تو آئیں اور ملک کی تعمیر میں کسی نتیجے پر پہنچیں۔ اور اگر آپ نے پنجابیوں اور دہشتگرد گروہوں سے بیعت لی ہے تو اپنے آپ کو افغان نہ کہیں۔
افغان صدر اور اُن کی حکومت طالبان پر پہلے دن سے پاکستان کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں اور اکثر اوقات پاکستان کی جگہ پنجاب اور پنجابیوں کا نام لیتے ہیں
صدر غنی نے اس خطاب میں پوچھا کہ طالبان کے سربراہ مُلا ہیبت اللہ کہاں اور کس غار میں ہیں اور وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وہ زندہ ہیں تو آئیں ہرات کے بازاروں میں گھومیں، مزار کی گلیوں میں گھومیں اور کابل میں گھومیں۔
طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اور اُن کی دیگر قیادت نامعلوم مقام سے طالبان کی قیادت کر رہے ہیں۔
کئی افغان یہ دعویٰ کر رہے کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں روپوش ہیں لیکن خود افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تمام قیادت افغانستان میں ہے لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنا پر روپوش ہے۔
صدر غنی نے کہا کہ اگر طالبان کو عوام کا احترام ہے اور انتخابات میں حصہ لینا چاہیں تو وہ چھ ماہ یا ایک سال میں نئے انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں۔
انھوں نے زور دیا کہ افغانستان میں خونریزی کی اجازت نہیں دیں گے اور افغانوں کے ایک دوسرے کو مارنے کی کوئی اسلامی وجہ نہیں ہے۔
افغان صدر نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان نے اپنے قیدیوں کی رہائی میں کم از کم چالیس بڑے اور مشہور سمگلرز کو بھی رہا کرایا۔
انھوں نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ ملک میں مختلف صوبوں میں قدرتی معدنیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے اس تقریر میں پاکستان پر الزامات کے ساتھ ساتھ مولانا سمیع الحق کے بیٹے پر تنقید کی اور کہا کہ اُنھیں افغانستان کے نظام میں کوئی اختیار نہیں۔
’سمیع الحق کے بیٹے کو کیا اختیار ہے کہ وہ ہمارے مستقبل کی نظام حکومت پر بات کریں؟‘