شال کی یادیں
کتاب کامصنف زرک میر
تجزیہ: جی آر مری
شال کی یادیں ایک ایسی کتاب ہے جس کی پیش لفظ پڑھنے سے ایک ایسا جذبہ پیدا ہوتا ہے ایک ایسا ولولہ دل میں اُبھر آتا ہے کہ اس پوری کتاب کو پڑھے بغیر اور کُچھ نہ کروں۔ میں نے اس کتاب کو ایک نظر دیکھنے کے لئے ہاتھ میں تھاما اور پیش لفظ پڑھنے لگا اس قدر خوبصورت الفاظ کا چُناؤ کیا گیا ہے کہ دل کر رہا تھا اُسی وقت پوری کتاب پڑھ لوں مگر زندگی میں مختلف مصروفیات اور اُلجھنوں میں اُلجھنے کی وجہ سے میں اس کتاب کو اُس وقت تو پڑھ نہ سکا پر میں نے ٹھان لی کہ شال کی یادوں کو شال میں جا کر ہی پڑھ لونگا تو میں شال چلا گیا اور وہیں جبلِ نور جیسے خوبصورت پہاڑ کی اُونچائی پر بیٹھ کر زرک میر کی اس بہترین کتاب کا مطالعہ کرتا رہا۔
جب بات شال کی آتی ہے تو میرے دل میں ایک الگ سا محبت جاگ اُٹھتا ہے شاید میری شال سے اس طرح بے پناہ محبت کسی اور سے محبت ہے جس نے مجھے شال کے ایک ایک گلی کوچے کا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد میرے لکھنے اور پڑھنے کا شوق اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے شاید میرا جیسا کمزور لکھاری بھی ایک دن شال سے محبت پہ کتاب ہی چھاپ دے، پر بہت مشکل ہے الفاظ کو ترتیب دینا اور جوڑنا ہمارے بس میں کہاں؟
اس کتاب کا مصنف( زرک میر ) جو بظاہر ایک نامعلوم فرد ہے۔ مگر جو بھی ہے لکھنے میں ماہر ہے جس کے الفاظ نے اور مُختلف واقعات کو یوں ترتیب دینا حقیقتاً ایک اہم مصنف ہی کرسکتا ہے۔ اپنے اس کتاب میں زرک میر نے اپنا ذکر خاص طور پر قلات بلوچستان سے کی ہے اور اپنے زندگی میں اس نے پانچ عشق کئے ہیں۔ اس کی محبوباؤں میں قلات ،گڈانی ،شال(کوئٹہ) اور بولان شامل ہیں۔ پانچواں عشق زرک میر کا بہت ہی حساس عشق رہا ہے جس کا بظاہر نام تو (شیتل جو کہ قلات کی رہنے والی ہندو لڑکی ہے ) مگر شاید یہ بھی انہوں نے کوئی قلمی نام رکھا ہو۔
انہی پانچ عشقوں کو لے کر زرک میر اپنی کتاب میں بلوچستان کی تاریخ سمیت مُختلف واقعات اور کئی عظیم رہنماؤں کا ذکر اپنے خوبصورت الفاظ میں کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے پانچویں عشق شیتل کی یادوں کو لے کر بلوچستان کے مُختلف شہروں کا دورہ بھی کرتا ہے اور وہی اس کتاب کے بھی مُختلف باب بھی لکھتا ہے جن میں بلوچستان کا ساحلی شہر گڈانی بھی شامل ہے۔
شال تو میرے لئے جنت کی مانند ہے۔ جہاں کوہ چلتن ،کوہ مردار کسی خوبصورت محل سے کم نہیں، سیب کے باغات، ان میں بہتا ہوا پانی، اور خاص طور پر دسمبر اور جنوری کی ماہ میں برف باری کو تو میں کبھی بُھلا ہی نہیں سکتا شاید اسی برف باری میں میری بھی کئی یادیں بسی ہیں مجھے شال سے اس لئے بھی محبت ہے کہ شال تو بلوچستان ہے شال مزاحمت ہے اور مزاحمت ہی تو زندگی ہے۔ چلو شال پہ تو ایک الگ سا کتاب ہی لکھا جاسکتا ہے اب زرہ زرک میر کے شال کی طرف چلتے ہیں آخر کار زرک کی شال سے کس طرح کی یادیں وابستہ ہیں۔
زرک میر کی کتاب (شال کی یادیں ) الحاق کے معاہدے سے لے کر نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت تک بلوچستان کے سیاسی، سماجی، معاشی، بغاوتی، بدامنی، تمام تر حالات مُختلف باب میں اور خوبصورت ترتیب کے ساتھ قلم بند ہیں۔ جہاں تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان کا وجود میں آنا اور بلوچستان پہ الحاق نامی معاہدے کے بعد بلوچستان پہ قبضہ کرنا اور اسی معاہدے کے خلاف خان آف قلات کے بھائی پرنس آغا عبدالکریم کا اس الحاق والے معاہدے کو نا ماننا اور بلوچستان میں بغاوت کی بنیاد رکھنے سے لے کر بابو نوروز زہری کی 80 سال کی عمر میں پہاڑوں کا رخ کرکے بلوچستان کے لئے جدوجہد اور آزادی کی جنگ لڑنا ، سردار عطا ء اللّٰہ مینگل اور سردار اختر مینگل کی سیاست، بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری کی کامریڈی، مارکسی، جلاوطنی اور واپسی ،جرنل شیروف مری کی بہادری، نواب اکبر خان بگٹی کی پاکستان پرستی سے غداری کا تمغہ ،طلباء تنظیم بی ایس او کی بنیاد سازی، بلوچ پشتون تضاد(جو اب نہیں ہے)، افغان آباد کاری، سریاب(شال کا بلوچ آبادی علاقہ) کی سیاست، بگٹی و کلپر میں لڑائی، رند و رئیسانی قبیلہ کی تضاد، برصغیر میں پہلی سیاسی تنظیم “اتحاد بلوچاں” (1920) یوسف عزیز مگسی سے عبداللہ جان جمالدینی تک بلوچ ادب کے لئے خدمات۔ ڈاکٹر حئی سے لے کر شہید فدا بلوچ ،حمید بلوچ ،عبدالحکیم لہڑی، میر عبدالنبی، ماما فیروز لہڑی، شہید حبیب جالب اور کہی سیاسی اور قومی ورکرز کی زندگیاں قلم بند ہیں۔
اس کتاب کی پیش لفظ یعنی شال کی یادوں کا شروعات بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری کی شال ائیرپورٹ پر استقبال سے شروع ہوتا ہے جب مصنف پہلی دفعہ کسی سیاسی اجتماع میں شرکت کرنے جارہا تھا۔ وہ اس تناسب سے بڑا قومی استقبال تھا جب قومی رہنما وطن واپس آرہا تھا۔ جیسا کہ دنیا کی قومی تحریکوں کی تاریخ رہی ہے کہ ان کے رہنما جلاوطن ہوتے ہیں اور انقلاب کی صورت میں جلاوطنی ختم کرکے واپس آتے ہیں تو پوری قوم امڈ آتی ہے۔ لیکن یہاں صورتحال کچھ مختلف تھی جہاں انقلاب ایک طرح سے ناکام ہو گیا تھا جس کے بعد یہ رہنما وطن چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ باہر رہے۔ لیکن پھر بھی قوم کا جذبہ ایسا تھا گویا انقلاب آ چکا ہو۔
چنانچہ اس اجتماع میں مشرق، مغرب، شمال، جنوب اور وسط وطن کے ہر کونے سے لوگ آئے تھے ۔ گونگے بابا کے نام سے مشہور بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری کے استقبال کےلیے بغیر کسی اعلانیہ، درخواست، اپیل اور منصوبہ کے سب کو اکٹھا کر دیا تھا۔ یہاں سیاسی و غیر سیاسی قبائلی غیر قبائلی، براہوی، بلوچی ،سرائیکی، سندھی، پشتون اور دیگر زبانیں بولنے والوں کا عظیم اجتماع تھا۔ پوری قوم اختلاف بالائے طاق رکھ کر استقبال کے لیے امڈ آئی تھی۔ پھر نواب مری کی ہجرت نے بھی قوم کو امید دلائی تھی کہ نواب مری بہت کچھ لینے گئے ہیں اور بہت کچھ لے کر آرہے ہیں۔ اس دن نواب خیر بخش مری نہیں آرہے تھے بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ قوم کا مہدی آ رہا ہے۔ عیسی آرہا ہے۔
آگے مصنف مزید لکھتے ہیں نواب خیر بخش مری کی افغانستان واپسی کے لئےائیرپورٹ پر جانا مصنف کا پہلا سیاسی سفر تھا جو اس نے لاشعوری طور پر والد کے ساتھ کیا تھا۔ مصنف اپنے والد کے ساتھ اپنے ہی ماموں کی پک اپ گاڑی میں بیٹھ کر ائیرپورٹ کی طرف جانے لگا جہاں ہزاروں تعداد میں لوگ امڈ کے آئے ہوئے تھے۔ ایئرپورٹ پر گئے شام سے رات ڈھلنے لگی اچانک جہاز کی بتی فضا میں سرخ نظر آئی جہاں زمین پر موجود قافلے تھکے ہارے تھے لیکن جہازکی بتی دیکھ کر سب کھڑے ہوگئے اور نعرہ بازی شروع ہوگی ۔ سب کہنے لگے” مری مینگل آئیں گے انقلاب لائیں گے”۔
نعرے بازی ہونے لگی کی اسی دوران پشتونوں کے قبیلے کے لوگ بھی بند گاڑیوں میں پہنچ گئے سب کھڑے ہوگئے کہ پشتون کیوں آئے ہیں پتہ چلا کہ یہ محمود خان اچکزئی کے مخالفین ہیں جو اب نواب مری کے استقبال کے لیے آئے ہیں گو کہ نواب خیر بخش مری کے استقبال کے لیے ہر علاقے سے لوگ آئے تھے مری بلوچ تو کافی تعداد میں تھے۔
نواب بگٹی نے کہا تھا کہ شال یروشلم ہے کوہ سلیمان ،چلتن ،ہربوئی شاشان اور کوہ باتل کا سیاسی سنگم ہے ،یہ ہماری پہچان ہے۔ شال کی سیاسی تاریخ یوں تو بہت پرانی اور وسیع ہے۔ اس میں کئی نسلوں قوموں ، گروہوں کی جدوجہد کی تاریخ دفن ہے۔ شال کو بلوچ سیاست کے حوالے سے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اول اور بڑی سیاست کی گڑھ سریاب ہے جبکہ دوسری جانب ہدہ،کلی اسماعیل اور پھر ایئرپورٹ کے کچھ علاقے بھی انہی کے ساتھ سیاسی تجربہ رکھتے آئے ہیں۔
اس کتاب (شال کی یادیں) میں اُن تین عظیم رہنماؤں کا بخوبی ذکر ہے جن کو ایک دور میں ریاست بھی کہتی تھی کہ بلوچستان انہی تینوں سرداروں کا ہے جن میں بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری، ڈاڈائے بلوچ شہید وطن نواب اکبر خان بُگٹی اور سردار عطاء اللّٰہ بلوچ شامل ہیں۔
اس کتاب میں نواب خیر بخش مری کے شال میں (حق توار) کے نام پہ اسڈی سرکلز لگانا اور مُختلف جدوجہد کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ چیف جسٹس شاہنواز مری قتل کیس میں نواب مری کو گرفتار کرنا اور جیل میں ہونے کے باوجود نواب مری کا بلوچستان کے لئے جدوجہد جاری رکھنا بھی شامل ہے۔ شہید نواب اکبر خان بُگٹی جنہوں نے ہمیشہ ریاست سے وفاداری کی اور اُن پوری زندگی اور سیاست کے ساتھ ساتھ اُنکے زندگی کے آخری چھ اہم اور انقلابی دور کا بھی ذکر ہے یہاں تک کہ آپ کے شہادت کے بارے میں بھی زرک نے اپنے خیالات قلم بند کئے ہیں۔ اسی کتاب میں شہیدِ وطن سردار بالاچ مری کا بھی ذکر ہے جو وطن کے لئے ڈاڈائے بلوچ(بلوچستان) شہید نواب اکبر خان بُگٹی کی طرح ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ آپ کو ڈاڈائے بلوچستان یا بلوچ کا لقب شہیدِ وطن بالاچ مری نے دیا تھا ان سب واقعات کے ساتھ ساتھ کئی اور انقلابیوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے اور سردار عطاءاللّٰہ مینگل کے ایوانوں میں عظیم دھواں دار اور تاریخی تقریروں کا بھی ذکر ہے۔شاید میرے اب تک تمام کتابوں کا مطالعہ کرنا اور شوق سے پڑھنے والا یہ کتاب سب سے بہترین ثابت ہوئی ہے۔