بلوچستان پولیس کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے ہفتے کے روز بلوچستان کے ضلع آواران سے دو افراد کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ سی ٹی ڈی نے دعوی کیا ہے کہ مزکورہ افراد کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوئی ہیں جن کا مقصد بلوچستان میں یوم آزادی کی تقریبات پر حملہ کرنا تھا-
سی ٹی ڈی نے مزکورہ افراد کی شناخت سراج احمد اور حسن جان کے نام سے ظاہر کی گئی۔
اسی طرح کل کوئٹہ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا ہے جس نے سور پل سمنگلی روڈ کے قریب پاکستانی جھنڈے فروخت کرنے والے سٹال پر دستی بم پھینکا تھا تاہم بعدازاں حکام نے بتایا کہ مذکوہ افراد منچلے نوجوان تھے جن کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔
گذشتہ روز پنجگور سے بھی سی ٹی ڈی نے ایک شخص کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا تاہم کوئٹہ اور پنجگور سے گرفتار افراد کی شناخت پولیس کی جانب سے ظاہر نہیں کی گئی۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشنوں اور گرفتاریوں کے دعوے کے بعد بلوچ حلقوں کی جانب سے سی ٹی ڈی و فورسز کے ان کاروائیوں کی سختی سے مذمت کی گئی، ان حلقوں کے مطابق سی ٹی ڈی کے کاروائیوں میں جن افراد کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے وہ پہلے سے لاپتہ افراد ہیں-
آواران سے سی ٹی ڈی کی جانب سے گرفتار دو افراد کو دہشت گرد ظاہر کرنے پر ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے مطابق ایچ ار سی بی نے ناموں کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ دونوں سراج احمد ولد واحد بخش اور حسن جان ولد رحمت جبری طور پر لاپتہ افراد میں شامل تھے۔ دونوں نوجوانوں کو 11 جون 2021 کو فورسز حکام نے حراست میں لیا تھا اور اس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے۔
ایچ ار سی بی کے بیان کے مطابق گشکور آرمی کیمپ کے عہدیداروں نے سراج احمد اور حسن جان کے اہل خانہ کو دھمکی دی کہ وہ انہیں کیمپ لاکر انکے سامنے پیش کریں تاکہ ہم ان کے خلاف شبہات کو دور کرسکے، 11 جون 2021 کو اہلخانہ نے سراج احمد اور حسن جان کو آرمی کیمپ لے آئے جہاں پاکستانی فورسز نے انہیں حراست میں لینے سے پہلے اہلخانہ کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا اہلخانہ کو اس یقین دہانی کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا کہ وہ پوچھ گچھ کریں گے اور دونوں افراد کو چھوڑ دیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سراج ذہنی طور پر معذور اور 15 سال کا ہے جبکہ حسن جان کی عمر 17 سال ہے، ماضی میں ریاستی مظالم کا شکار ان کے خاندان کے کئی افراد کو اغوا کیا گیا اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔
ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان (HRCB) کے مطابق سی ٹی ڈی کی تحویل میں دونوں نابالغوں کی خیریت پر گہری تشویش میں ہیں۔ صرف اس سال سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں کم از کم 14 افراد کو قتل کیا گیا ان میں سے 11 کو لاپتہ افراد کے طور پر شناخت کیا گیا جنہیں مختلف اوقات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اغواء اور لاپتہ کیا۔
یاد رہے اس سے قبل بھی سی ٹی ڈی کے جانب سے کوئٹہ و مستونگ جعلی مقابلے میں دس افراد کو قتل کردیا گیا تھا کوئٹہ میں گذشتہ دنوں قتل ہونے والے افراد میں پانچ جبکہ مستونگ میں سی ٹی ڈی کے ساتھ جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے پانچ افراد پہلے سے لاپتہ تھیں –
بلوچستان میں قائم سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں نے سی ٹی ڈی کے ان کاروائیوں کی سختی سے مزمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست جبری گمشدگی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے بعد لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کررہا ہے –