سقوط کابل اور بلوچستان پر اسکے اثرات – ٹی بی پی اداریہ

1022

سقوط کابل اور بلوچستان پر اسکے اثرات
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے اچانک قبضے اور افغان صدر کے ملک چھوڑنے نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا۔ اس اچانک تبدیلی نے افغان عوام کو انکے مستقبل اور حاصل آزادی کے بابت جائز فکر میں مبتلا کردیا۔ سقوط کابل کے فوری بعد ہی ہزاروں افغان شہریوں نے کابل ائیرپورٹ کا رخ کرنا شروع کردیا تاکہ وہ بروقت ملک سے نکل سکیں۔ دریں اثناٗ امریکہ اور اتحادی خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں اور معانوں کو نکالنے میں مشغول رہے۔

لوگوں کا خوف اور خفیہ اداروں کی پیشن گوئی اس وقت ایک خوفناک سچ ثابت ہوئی جب 26 اگست کو کابل ائیر پورٹ پر ہونے والے دوہرے دھماکوں میں 100 سے زائد افراد جانبحق ہوگئے، جن میں 13 امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ خراسان نے قبول کی۔

گوکہ طالبان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا ہوا ہے اور وہ خواتین و انسانی حقوق کی تحفظ یقینی بنائیں گے، لیکن شریعیت کے دائرے میں، جو مزید شبہات کو جنم دے رہا ہے کہ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت قوانین کو دہرائیں گے؟

افغانستان میں طالبان کی حکومت جہاں خواتین سمیت اقلیتوں کے مستقبل پر فیصلہ کن اثرات ڈالے گا، وہیں خطے میں یہ اچانک بدلاو یہاں کے دوسرے اسٹیک ہولڈروں پر بھی اثرات مرتب کریگا، جس میں بلوچستان اور بلوچ عوام بھی شامل ہیں۔ افغان سرزمین ہمیشہ سے بلوچوں کیلئے دوسرے گھر کی طرح رہا ہے، اسی طرح بلوچستان دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا رہا ہے۔

طالبان کی حکومت کی وجہ سے ایک بار پھر لاکھوں کی تعداد میں افغان بلوچستان کی جانب رخ کریں گے، جس کی وجہ سے بلوچستان میں مردم نگارانہ تبدیلیاں آنے کے امکانات ہیں۔ بلوچ سیاسی جماعتیں عرصہ دراز سے یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ ریاست پاکستان افغان پناہ گزینوں کو بلوچستان میں بڑی تعداد میں شہریت دیکر بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے کی سازش رچا رہا ہے۔

دوسری طرف، آزادی پسند مسلح بلوچ جماعتوں اور پاکستان کے مابین دو دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے جو متاثرہ بلوچ افغانستان کا رخ پناہ کی غرض سے کرتے آرہے تھے، انہیں بھی کابل میں ایک پاکستان نواز حکومت کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

بلوچ تحریک پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ستر کی دہائی کی بلوچ تحریک کی ناکامی کی بڑی وجہ نجیب کی کمیونسٹ حکومت کی انہدام اور نوے کی دہائی میں افغانستان پر طالبان کا مکمل کنٹرول مانتے ہیں۔ جسکی وجہ سے بلوچ قیادت کو بعالم مجبوری پاکستان سے مذاکرات کرکے واپس آنا پڑا تھا۔

بہرحال اس بار صورتحال یکسر مختلف دِکھائی دیتی ہے، آزادی پسند بلوچ مسلح جماعتوں کی قیادت کا سرنڈر کرنا ایک ناممکن امر نظر آتا ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بلوچ آزادی پسند جماعتوں کے مسلح حملوں میں مزید تیزی اور خاص طور پر گوادر میں چینی انجنیئروں کے ایک قافلے پر بی ایل اے کے خودکش حملے جس میں چھ چینی شہری ہلاک ہوئے تھے کو ایک پیغام کے طور پر لیا جارہا ہے کہ بلوچ مسلح تنظیمیں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

طالبان نے امریکی انخلا کے بعد بھاری تعداد میں جدید امریکی اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ ماضی کی طرح ان اسلحہ جات کی بھی بڑی تعداد بلیک مارکیٹ میں بکنے پہنچ جائیگی، جہاں سے بلوچ مسلح تنظیمیں اپنی جنگی ضروریات پوری کرتے ہیں، اسکا مطلب یہ ہوگا کہ خطے میں جاری جنگ آنے والے سالوں میں شدت اور طوالت اختیار کرتی جائیگی۔