دو افغانستان -یوسف بلوچ

456

دو افغانستان

تحریر:یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

افغانستان میں اس وقت،ایک خون کے دو رخ مدِ مقابل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک خون افغان فورسز کے لقب سے جانا جاتا ہے اور دوسرا طالبان کے۔خون ایک ہی ہے، مِلک ایک ہی ہے۔نظریے الگ ہیں۔جنگجو الگ ہیں اور کردار الگ ہیں۔

ایک خون ایک محکم، پر امن افغانستان کی جنگ لڑ رہا ہے،ایک ترقی یافتہ افغانستان کی امید اپنے دل میں رکھ کر مورچے میں کھڑا اپنے حریف سے میدانِ جنگ میں مدمقابل ہے۔ ہزاروں ماؤں کی امید،ترستے لرزتے بہنوں اور سسکتی بھری اپنے بھائیوں کی درد دل میں رکھ کر نبردِ آزما ہے۔

اور دوسری وہ جو ہزاروں ماؤں کی لاشوں سے کھیل رہا ہے۔ لوگوں کو ازیت دے رہا ہے، بھائیوں کو غم زدہ اور بچوں کی مستقبل کو تابناک کر رہا ہے،لیکن لڑ رہا ہے۔

حکومت بے حس ہے، بے بس ہے، جب کبھی امن کی بات آتی ہے تو الزام پاکستان پر لگتا ہے۔ اشرف غنی سے لے کر امراللہ صالح تک سب پاکستان کو طالبان کا مددگار قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی دیکھیئے، دفترِ خارجہ سے افغان حکومت کی بیان کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف وزیرِ خارجہ طالبان کے حق میں بیان دیتا ہے، وزیرِ داخلہ ہزاروں لوگوں کے قاتل کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔

کبھی ہم افغانستان کے غم میں برابر کا شریک اور کبھی ہم طالبان کی حمایت کر لیتے ہیں۔

کبھی افغان سفیر کی بیٹی اسلام آباد سے اغوا ہو جاتی ہے۔ افغانستان کا سفارت خانہ احتجاجاً بند ہوتا ہے۔ دنیا پاکستان سے سلسلہ علی خیل کے لیے انصاف چاہتا ہے تو پاکستان کی پیش قدمی روانگی کے ٹیکسی ڈرائیور سے ہو پاتی ہے۔ اغوا کار ٹیکسی ڈرائیور سے نہیں۔

ایسے کیسے افغانستان ہم پر یقین کرے کہ پاکستان ہمارے ساتھ یکجہتی کر رہا ہے کیونکہ افغان امور کے ماہر پاکستانی تجزیہ نگار احمد راشد کہتے ہیں کہ 1994 سے 1999 کے درمیان اسّی ہزار سے ایک لاکھ طالبان جنگجو سرکاری سپورٹ سے ٹرین ہوئے اور افغان طالبان کا حصہ بنے۔

اگر یہ بات ہمیں پتہ ہے تو کیا افغانیوں کو پتا نہیں؟صحافی اعزاز سید حال ہی میں افغانستان سے آئے ہیں۔ ان کے بقول ہر افغانی کے دل میں ہمارے لیے بغض بھرا ہے،پیار نہیں۔

ویسے تو یہ کہنا کہ بطور ہمسایہ ہمیں افغان حکومت کا عملی طور پر ساتھ دینا ایک فرض سمجھنا چائیے لیکن بات یہاں تک ختم ہوتی ہے کہ ہم بطور مسلمان ہمسایہ بھی ساتھ نہیں دے رہے،ہم بطور مسلمان بھی افغان مسلمان کا غم نہیں رکھتے بلکہ اس کے برعکس ہم کشمیری و فلسطینی مسلمانوں کے لیے اپنے جان قربان کرنے کے درپہ ہیں۔
آج افغانستان دو حصوں میں ہے،ایک افغانستان اسپین بولدک میں طالبان کی حکومت پر ہے اور دوسرا کابل حکومت۔

آج قندھار بم دھماکوں سے لرز رہا ہے، ویران ہے،شام کا منظر پیش کر رہا ہے اور کل یہی قندھار اور کابل تجارت،امن،ترقی،خوشحالی اور بھائی چارے کے نشان تھے۔

آج افغانستان میں پیار اور نفرت،امن اور جنگ،ترقی و تنزلی مدِ مقابل ہیں۔افغان انتظار کر رہا ہے کہ کب پیار اور امن اپنی کامیابی کی پرچم لہرائیں گے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں