بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ سی ٹی ڈی نے رواں مہینے ایک جعلی انکاؤنٹر میں پانچ دیگر زیرحراست افراد کے ساتھ بی این ایم کے دو ممبران کو بھی ماورائے قانون و عدالت قتل کیا جو کہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستانی فورسز کی زیر حراست تھے۔
انہوں نے کہا بی این ایم کے ممبر شہید صدام ولد اسماعیل سکنہ پنودی دشت ضلع کیچ کو کراچی کے ضلع ملیر سے 24 اپریل 2018 کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ رکھا۔ اس کے حوالے سے سوشل میڈیا کمپئن بھی چلائی گئی۔ صدام ایک مزدور پیشہ شخص تھے جو خلیجی ممالک میں مزدوری کرتے تھے۔ انہیں خلیج سے واپسی پر کراچی سے ان کے ایک رشتہ دار کے گھر پر چھاپہ مار کر اغواء کے بعد لاپتہ کیا گیا۔
جبکہ بل نگور تحصیل دشت ضلع کیچ کے علاقے سورک کے رہائشی شہید عبدالغنی ولد لیاقت پچھلے چار سالوں سے پاکستانی فورسز کی زیرحراست تھے۔ شہیدعبدالغنی بھی پیشہ کے لحاظ سے محنت مزدوری کرتے تھے۔ انہیں پسنی زیرو پوائنٹ سے پاکستانی فوجی اہلکاروں نے اس وقت جبری لاپتہ کیا جب وہ کراچی سے واپس اپنے گاؤں آرہے تھے۔ ان کی والدہ بیمار تھیں اور وہ اپنی والدہ کو علاج کے لیے کراچی لے کر گئے تھے۔ واپس آتے ہوئے راستے میں انہیں ماورائے عدالت حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ اس بات کی مصدقہ ثبوت موجود ہیں کہ سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلوں میں قتل کیے گئے تمام افراد قیدی تھے۔ پاکستانی فورسز نے زیر حراست لوگوں کو قتل کرکے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے لیے اسے جوابدہ بنانا ہوگا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا بلوچستان میں جاری پاکستانی بربریت میں نیا اضافہ جعلی مقابلوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ گذشتہ سال سے پاکستانی فوج نے نام نہاد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے نام پہ جبری گمشدہ افراد کے قتل کا سلسلہ شروع کیا جس میں مزید شدت لائی جارہی ہے۔ کوئٹہ نیو کاہان میں پانچ اور لورالائی میں پہلے سے زیر حراست سات بلوچوں کا ایک ساتھ قتل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھبیس اگست کو قتل کیے جانے والے افراد میں غنی بلوچ کو 20 اکتوبر 2017 کو پسنی زیرو پوائنٹ سے اور صدام بلوچ کو 24 اپریل 2018 کو پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے کراچی کے علاقے ملیر سے حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا تھا۔ عبدالحاد کو فورسز نے رواں سال جنوری کے مہینے میں پنجگور کے علاقے پروم سے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا تھا۔ جمیل ولد محمد حسن کو 19 مارچ 2021 کو پنجگور سے پاکستانی ایجنسیوں نے گرفتار کیا تھا جبکہ ساجد ولد محمد صادق سکنہ وشبود ضلع پنجگور کو سنہ 2018 کو پاکستانی خفیہ اداروں نے جبری لاپتہ کرکے انہیں دیگر دو جبری لاپتہ افراد کے ساتھ قتل کرکے مقابلے کا نام دیا گیا۔ دیگر افراد کی شناخت کا مرحلہ جاری ہے۔ پاکستان کا یہ جنگی جرم قطعی ناقابل قبول اور ناقابل معافی ہے۔
ترجمان نے کہا پہلے پاکستان جبری گمشدہ افراد کو قتل کرکے ذمہ داری لینے سے انکاری تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان اپنی جنگی جرائم کو چھپانے کو ناکام رہا۔ اس بربریت کو چھپانے میں ناکامی کے بعد اب پاکستانی فوج جبری گمشدہ افراد کو قتل کرکے سی ڈی ٹی کے نام سے قبول کروا رہی ہے۔ مگر پاکستانی ادارے قانونی طور پر ان کو کسی بھی عدالت میں مجرم ثابت نہیں کرسکے۔ پاکستان ایک دن انہی جنگی جرائم پر تاریخ کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ اور ہرنائی میں قتل ہونے والے افراد جبری گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ انہیں زندانوں سے نکال کرقتل کرنا پاکستانی بربریت کی نہایت بھیانک شکل ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے حتمی اطلاع ہے جو اپنے جبری گمشدہ پیاروں کے نام میڈیا میں لانے سے فوج کے دھمکی کے باعث کتراتے ہیں۔