جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون کاغذوں تک محدود ہے – ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

151

 

جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن کی مایوس کن کارکردگی بشمول اس کے چئیرپرسن کی خراب ساکھ اور اِس سنگین جرم میں مجرموں کے محاسبے کے لیے اس میں صلاحیت یا ارادے کے فقدان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے-

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو یہ جان کر شدید دکھ ہوا ہے کہ گذشتہ 10 برسوں میں علاقائی لحاظ سے جبری گمشدگیوں کا دائرہ وسیع ہوا ہے اور اب یہ جرم تمام صوبوں اور علاقوں تک پھیل گیا ہے، جبکہ پس منظر کے لحاظ سے متاثرین میں اب نہ صرف سیاسی کارکنان شامل ہیں بلکہ صحافی اور انسانی حقوق کے دفاع کار بھی اس کی لپیٹ میں ہیں-

مزید کہا گیا کہ اگرچہ حال ہی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف تجویز کیا گیا مسودہ قانون کاغذی کاروائی کے اعتبار سے ایک اچھا قانون ہے اور کم از کم صورتحال کی سنگینی کا اعتراف کرتا ہے مگر ایچ آر سی پی کے لیے پریشان کن امر یہ ہے کہ مسودہ قانون میں مجرموں کی شناخت اور محاسبے کے لیے ٹھوس اور قابلِ عمل طریقہ کار موجود نہیں اور متاثرین اور اُن کے ورثاء کے لیے معاوضے کا بندوبست بھی دستیاب نہیں ہے۔ اِس کے علاوہ جب تک ذمہ داری صرف افراد پر عائد کرنے کی بجائے قانون کے تحت تمام ریاستی ایجسنیوں کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا، صرف قانون کے موجودگی سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نہیں رکنے والا نہیں ہے –

ایچ آر سی پی نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری ادا کرے اور جبری گمشدگیوں کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے پہلے سے زيادہ پختہ عزم کا مظاہرہ کرے-

آج ایچ آر سی پی کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والے ایک سمینار میں ، چئیرپرسن حنا جیلانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حتیٰ کہ ایک جبری گمشدگی بھی صورتحال کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے کافی ہے وہ خاص طور پر اِس لیے پریشان ہیں کہ افغانستان کا بحران طالبان کے نظام کے خلاف بولنے اور اس نظام کو ریاستِ پاکستان کی پوشیدہ حمایت کی مخالفت کرنے والے ترقی پسند حلقوں میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے-

سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر، ایچ آر سی پی نے اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور ملتان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا۔