بی ایل ایف کے خلاف جیش العدل کا بیان حقائق کے برخلاف ہے۔ میجر گہرام بلوچ

1009

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے میڈیا کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران میں حکومت کے خلاف سرگرمِ عمل جیش العدل نامی ایک فرقہ پرست مسلح تنظیم نے 26 جولائی 2021 کو سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر بی ایل ایف پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔ہم اس انتظار میں تھے کہ شاید جیش کی جانب سے مذکورہ ویڈیو بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جائے مگر ان کی طرف سے کوئی وضاحتی بیان نہیں آیا۔ یاد رہے کہ 30 جون 2021 کو بھی جیش العدل نے ایک بیان میں جھوٹا الزام لگایا تھا کہ بی ایل ایف اور بی آر اے کے سرمچاروں نے جیش کے کارندوں پر حملہ کیا ہے اور اس حملہ میں ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب کی مبینہ مدد سرمچاروں کو حاصل تھی،مزید یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس کے نام نہاد جان بازوں نے مبینہ حملہ ناکام بناتے ہوئے حملہ آوروں کی ایک گاڑی کو قبضے میں لیا تھا جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پنجگور کے پہاڑوں میں ایک مقام پر راشن سے بھری بی ایل ایف کی ایک کھڑی کی ہوئی گاڑی کو جیش نے چرا کر قبضہ میں لے لیا تھا پھر اپنا جرم چھپانے کیلئے حملے کی جھوٹی کہانی گڑھ لیا تھا۔اس لئے جیش العدل کی جانب سے بلوچ سرمچاروں خصوصاً بی ایل ایف کے خلاف اس جھوٹی پروپیگنڈہ مہم کی حقیقت اور اس الزام تراشی کے پیچھے پوشیدہ قوت اور ان کے عزائم کو بلوچ قوم اور میڈیا کے سامنے بے نقاب کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

جیش العدل کافی عرصہ سے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی سرپرستی میں گولڈ اسمت باؤنڈری لائن سے ملحق مقبوضہ بلوچستان کے علاقوں پروم، زامران، پنجگور، ماشکیل اور واشک سمیت مختلف علاقوں میں سرگرم ہے۔اس کے سارے کیمپ، تربیتی مراکز اور کمین گاہیں مذکورہ بالا علاقوں میں ہیں جس کے باعث کئی بار بی ایل ایف کے سرمچاروں کے ساتھ ان کا سامنا ہوتا رہا ہے۔ اور پاکستانی فوج کے سرپرستی میں متذکرہ علاقوں میں کئی جگہ اور شاہراہوں پر جیش العدل کی چوکیاں لگی ہوئی ہیں جہاں وہ سرحدی تجارت سے منسلک بلوچوں کی گاڑیوں کو روک کر فی گاڑی سے ہزاروں روپے جبری ٹیکس لیتے ہیں، مسافر بردار گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لیتے اور عوام کو ہراساں کرتے رہتے ہیں۔یہ گروہ منشیات سے بھری گاڑیوں کو کرایہ پر سکیورٹی بھی فراہم کرتی ہے۔ نہ صرف سرمچاروں کی نقل و حرکت کے بارے میں پاکستانی فوج کو اطلاع دینے بلکہ سرمچاروں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں بھی فوج کی معاونت کرنے کے ان کے خلاف شواہد موجود ہیں ان کی گاڑیاں پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈز کی گاڑیوں جیسے ہیں جس کے باعث سرمچاروں کیلئے بعض اوقات جیش کے ارکان، پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈز میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ فوج اور ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ مذکورہ تنظیم کے ارکان کی اشتراک، ان کی گاڑیوں اور طریقہ کار سے ان کی مماثلت کے باعث سرمچاروں کے ساتھ ان کی مسلح تصادم کے کچھ واقعات پیش آئے ہیں۔2014 میں پہلی بار بی ایل ایف کے سرمچاروں کے ساتھ ان کا ایک جھڑپ ہوا تھا جس میں جیش کا ایک کارکن زخمی ہوا تھا بعد میں ان کی شناخت ہونے پر سرمچاروں نے انھیں اپنے زخمی ساتھی کو لے جانے کا راستہ دیا تھا۔ 2015 کے ایک اور واقعہ میں جیش العدل کے کارندوں نے زامران کے علاقے میں بی ایل ایف کے سرمچاروں پر اچانک حملہ کیا تھا جس میں بی ایل ایف کا سرمچار فاروق بلوچ شہید اور سرمچار سلطان زخمی ہوا تھا اور سرمچاروں کی جوابی فائرنگ سے جیش کا ایک حملہ آور بھی ہلاک ہوا تھا۔اس واقعہ کے بعد بی ایل ایف کے مقامی کمانڈرز نے جیش العدل کے کمانڈرز کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ لوگ ایران کے خلاف اپنے مذہبی فرقہ کے حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہو تو جاکر ایران کے اندر اپنے کیمپ، تربیتی مراکز اور کمین گاہیں بنائیں وہاں پہاڑوں اور خفیہ مقامات کی کمی نہیں مگر اس گروہ کو وہاں کے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے اس لئے وہ ایران کے اندر بیٹھ کر جدوجہد کرنے سے گریزاں ہیں۔

بی ایل ایف کو شروع ہی سے خدشہ تھا کہ آنے والے وقت میں کسی بھی مرحلہ پر جیش العدل بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان کا آلہ کار بن سکتا ہے۔ آج ہمارا خدشہ درست ثابت ہورہا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان جیش العدل کو بلوچ تحریک آزادی کے خلاف بطور پراکسی استعمال کررہی ہے۔

اسی گروہ نے 2019 میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر براس BRAS کے سرمچاروں پر بلیدہ/زامران کے علاقہ میں حملہ کیا تھا جس میں پانچ سرمچار شہید ہوئے تھے۔جائے وقوعہ سے سرمچاروں کو حملہ آوروں کا ایک فون ملا تھا جس میں جیش العدل کے نام نہاد جہادیوں اور ان کے کیمپ و کمین گاہوں کے تصاویر موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ حملے میں پاکستانی فوج کے ساتھ جیش العدل کے کارندے بھی شریک تھے۔
یاد رہے کہ جیش العدل کے کارندوں کی اکثریت کا تعلق مقبوضہ بلوچستان کے علاقوں ماشکیل، واشک، پنجگور، پروم، زامران اور بلیدہ سے ہے اس کے علاوہ جیش العدل کے مراکز اور کمین گاہوں میں پنجابی اور دیگر پاکستانی دہشتگردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

پاکستان ایک جانب جیش العدل کے ذریعے مکران میں فرقہ وارانہ شدت پسندی اور نفرت کو ہوا دے کر بلوچ سماج کے اندر مذہبی و فرقہ وارانہ آزادی، ہم آہنگی اور رواداری جیسے اعلیٰ بلوچ قومی اقدار کو کمزور کررہی ہے اور اس گروہ کو بلوچ سرمچاروں کے خلاف فور فرنٹ forefront پر لا کر بطور پراکسی استعمال کر رہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی فوجی مظالم سے تنگ آکر مغربی بلوچستان نقل مکانی کرنے والے بلوچ خاندانوں کے خلاف پاکستان مقبوضہ بلوچستان میں جیش العدل کی موجودگی کو بطور بارگیننگ کارڈ استعمال کرنے کی بھی بھرپور کوشش کررہی ہے۔
جیش العدل کی قیادت کو مْلا عمر کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیئے جسے پاکستان نے مکران کے علاقوں کیچ، تمپ، گومازی، دشت اور مغربی بلوچستان کے بعض علاقوں میں بطور آلہ کار استعمال کرکے اس کی دہشتگرد گروہ کے ذریعے کئی بلوچ سرمچاروں اور ان کے رشتہ داروں کو شہید کروایا پھر کام نکلنے کے بعد ملا عمر کو اس کے بیٹوں سمیت کیچ کے انتہائی سیکیورٹی والے علاقہ میں پولیس کے ذریعے انکاؤنٹر کرکے سرِ عام ہلاک کیا۔

جیش العدل کے جاری کردہ ویڈیو میں تقریر کرنے والے شخص کی کم علمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بی ایل ایف کے سیکولر پروگرام کو اسلام کے خلاف کفر قرار دیتا ہے۔

ہم ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بی ایل ایف کوئی مسلکی و فرقہ وارانہ جنگ نہیں لڑ رہا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف بلوچستان کے آزادی کی قومی جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان بلوچوں کا ہم مذہب اور ان کی اکثریت کا ہم مسلک ہے مگر یہ مذہبی و مسلکی رشتہ پاکستان کو بلوچستان پر جبری قبضہ کرنے، توسیع پسندی اور نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ سے نہیں روک سکا۔ اس خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے جس کی توسیع پسندی نے 1947 میں کشمیری قوم سے ان کی آزادی اور مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار چھین لیا، پاکستان ہی ہے جس نے 1948 میں بلوچستان پر جبری قبضہ کرکے بلوچ قوم کی آزادی، قومی شناخت اور وقار کو پامال کیا۔ پاکستان ہی کے نام نہاد مسلمان فوج نے 1971 میں بنگالی قوم کا قتل عام کیا۔ یہ پاکستان ہی تو ہے جس کی “اسٹراٹیجک ڈپتھ” جیسے توسیع پسندانہ پالیسی کے باعث گزشتہ 43 سال سے افغانستان میں بیگناہ افغان عوام کا خون بہہ رہا ہے۔ جیش العدل کے نام نہاد سْنی اتحادی پاکستان ہی کے وحشی فوج،خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں ہزاروں بلوچ فرزند لاپتہ ہیں، ہزاروں کی تشدد سے مسخ لاشیں ملی ہیں، لاکھوں بلوچ نقل مکانی کرکے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نام نہاد سْنی پاکستان کی فوج روزانہ بلوچ بستیوں پر دھاوا بول کر بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، بچوں اور خواتین کو تشدد، بدسلوکی اور حراسمنٹ کا نشانہ بناتی ہے اور اس پاکستانی فوج کی دست درازیوں سے بلوچوں کی جان و مال، عزت آبرو غیر محفوظ ہیں۔ جیش العدل کو بلوچ قوم پر نام نہاد سْنی پاکستان کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے۔ سْنی اسلام کا علمبردار پاکستان اور اس کی منافق مذہبی جماعتیں پاکستانی ریاستی مفادات کی خاطر نہ صرف بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہیں بلکہ چین کے ہاتھوں اویغور مسلمانوں کی نسل کشی پر چین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

جیش العدل جیسے فرقہ پرست مسلکی تنظیم کواس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ بلوچ ایک قوم ہے جس میں اسلام کے تمام مسالک کے پیروکار آزادانہ طور پر اپنے مسلکی عقائد پر عمل کرتے ہیں بلوچوں کے اسی فراغ دلی اور حْسنِ سلوک کے باعث مقبوضہ بلوچستان کے غیر مسلم بھی بڑی فخر کے ساتھ اپنے آپ کو بلوچ کہتے ہیں۔ بلوچ قوم کا کوئی ایک مسلکی گروہ محکوم نہیں بلکہ من حیث قوم بلوچ محکوم ہیں اور من حیث قوم پاکستان سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ جو قوتیں بلوچ قوم کو فرقہ وارانہ، قبائلی یا لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا سبب بنتے ہیں وہ بلوچ قومی قوت کو کمزور کرنے کی غلطی کر رہے ہیں جو دانستہ اور غیر دانستہ طور پر پاکستان کے استعماری مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال ہورہے ہیں۔