بنگلادیش کی آزادی میں طلباء کا کردار – واھگ بزدار

656

بنگلادیش کی آزادی میں طلباء کا کردار

تحریر: واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کسی بھی سماجی, سیاسی اور انقلابی عمل میں نوجوان نسل کا ایک ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ آج کی ترقی پذیر, ترقی یافتہ اور آزاد اقوام کے تاریخ کو ایک سنہری سمت دینے میں طالبعلموں کا ایک عظیم کردار رہا ہے۔ یہی وہ طالبعلم تھے جنہوں نے ویتنام میں امریکہ جیسے استعمار کو للکارا, چین میں آمریت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے اور سروں کو قربان کیا, الجزائر میں فرانس جیسے قبضہ گیر کو ناکوں چبے چبوائے اور بنگالی طالبعلموں نے پاکستان جیسے سفاک ریاست کی بنیادیں ہلا کر اپنی قوم کو آزاد کرنے میں کامیاب رہے۔

دنیا کے تمام سماج سے تعلق رکھنے والے طلبا نے اپنی قومی اور ملکی مفادات کے لئے بہت سے قربانی دی ہیں اور تسلسل کے ساتھ دیتے آ رہے ہیں اور یہ وہ طبقہ ہے جو کسی بھی معاشرے کی تشکیل , ترقی اور تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے. دنیا کے ہرمعاشرے میں طلباء وطالبات کو سماج میں بسنے والے ہر طبقہ فکر کے لوگ مثبت نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کو اس معاشرے اور قوم و ملک کا اثاثہ سمجھتے ہیں ۔ نوجوان معاشرے کے سب سے زیادہ متحرک اساس جانے جاتے ہیں جو معاشرے کو سمت دینے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہیں وہ اساس ہیں جو قوم کےلیے راہیں متعین کرتے ہیں اور جوش ولوے کے ساتھ قوم کی راہنمائی کرتے ہیں۔ دنیا کی تمام تحریکوں میں جس بھی تحریک نے نوجوانوں کے کوکھ سے جنم لیا وہاں تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہو کر منزل تک پہنچی ہیں۔ نوجوانوں کے اس جنبش کو اگر شعورو علم سے لیس نوجوان اپنے سر لیں تو وہاں جدو جہد ایک ایسی تاریخی روپ لیتی ہے جس پر آنے والی نسلیں رشک کرتی ہیں۔

اگر دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں پر طلباء وطالبات کا آزادی کی جنگوں میں بہت ہی عظیم کردار دیکھنے کو ملتا ہے، جنہوں نے اپنی قوم، سرزمین ،تہذیب اور زبان کے لئے لازوال قربانیاں دیں اور کم عمری میں ہی وطن کا درد دل میں لیے آسودہ خاک بنے. وہ اقوام اور ممالک جہاں طالبعلموں کا جنگی میدان میں عظیم کردار رہا ہے، اُن میں افریقہ ،ہندوستان، الجزائر ،فلسطین، روس، بلوچستان اور بنگلادیش اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔

بنگلادیش کی آزادی میں طالبعلموں اور ڈھاکہ یونیورسٹی کا بہت ہی اہم کردار رہا میرے خیال میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ اگر ڈھاکہ یونیورسٹی اور طلبہ وطالبات اس آزادی کی تحریک میں شامل نہ ہوتے تو آزادی کا حصول نا ممکن سی بات تھی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام برطانوی سامراج کے قبضے کے وقت عمل میں آیا جس کا مقصد وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو ایک ایسا ادارہ مہیا کرنا تھا جو برطانیہ یا اس کے دلال محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ کو تقویت فراہم کریں اور ہندوستان میں موجود قوموں کو مذہب کے بنیاد پر لڑا کر اور تقسم کر کے ایک نوزائیدہ ریاست پاکستان کا قیام تھا. جامعہ قیام کے ساتھ ہی وہاں موجود تمام پروفیسرز اور طلباء نے مسلم اور اسلام کے پرچار کو بلند کیا جو کے برطانوی کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔

برطانوی سامراج کی طرف سے بننے والی کالونی پاکستان 1947 ہی میں دو جگہوں میں تقسیم ہوئی جس کو مشرقی اور مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی یہ نوزائیدہ اور غیر فطری ریاست مسائل کا شکار رہا اور پاکستان پنجابی قبضہ گیر مافیا کے ہاتھوں میں چلی گئی اور پنجابیوں نے بنگالی اور دوسرے قوموں کی پرواہ کیے بغیر اپنے خیالات و نظریات ٹھوسنا شروع کر دیے۔ پنجابی تو خود نہ کسی زبان اور ثقافت کا حامل ہیں اور نہ ہی انھیں کسی قوم کی تشخص کا علم چنانچہ پنجابیوں نے پاکستان کا قومی زبان اردو قرار دیتے ہوئے بنگالیوں کے شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی لیکن دھرتی کے ان عظیم سپوتوں نے مکمل طور پر اس سامراجی اور قبضہ گیر پالیسی کو ماننے سے انکار کردیا اور ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی ۔

ڈھاکہ یونیورسٹی اور دوسرے تمام طلبا نے پنجابی سامراج کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی کہ پاکستان میں سب سے بڑی آبادی ہماری ہے جو کہ تمام پاکستان کا 56 فیصد ہے چنانچہ آپ کس بنیاد پر ہم سے پوچھے بغیر اور ہمارا رائے لیے بغیر ہمارے مستقبل کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ہمارا تشخص ہماری سرزمین اور ہمارے زبان سے بندھا ہے چنانچہ ہم اردو کو کسی بھی صورت اپنا قومی زبان نہیں مانتے اور ہماری قومی زبان بنگالی ہے جس کے لئے ہم کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

طلبا تنظیموں کی جانب سے بنگلادیش بھرمیں پر امن مظاہرے کیے گئے اور اِس قسم کے ناانصافی کو مکمل طور پر ماننے سے انکار کیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے طالبعلموں کی جانب سے شروع کیے گئے تحریک نے پورے بنگلادیش کو اپنے لپیٹ میں ہی لے لیا۔ سامراج جو ہمیشہ ہی طاقت اور تشدد ہی کا زبان سمجھتا ہے، ڈھاکہ میں بڑھتے طالبعلموں کی مزاحمتی تحریک کو دیکھتے ہوئے 21 فروری 1952 کے دن پنجابی سامراج نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبعلموں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے کئی طالبعلم شہید کیے گئے۔ بنگلادیش کے طالبعلموں کی اس تحریک اور جدوجہد کو بشا ء آندولن کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالبعلموں کو جامعہ کے احاطے میں ہی شہیدکیاگیا اور ان شہادتوں کے بدولت اس جگہہ کے نام کو بعد ازاں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء وطالبات نے شہید مینار کے نام سے منسوب کیا اور آج بھی اس جگہ کو شہید مینار کے نام سے پکار اجاتا ہے۔

۱۹۵۲ سے لے کر 1956 تک ڈھاکہ یونیورسٹی نے میدان جنگ کی شکل اختیار کر لی اور اس جنگ میں جہاں طاقت کے نشے میں دھت پنجابی بندوق کے زور سے تحریک کو کچلنے کی سعی کر رہے تھے وہیں بنگلادیشی نوجوان خود کو کتابوں سے قریب رکھ کر قوم کے مستقبل کا تعین کر رہے تھے۔ بنگلادیشی نوجوان جہاں ایک جانب پنجابی سامراج کے سامنے خود کی زبان اور پہچان کے بقا کے لیے جدوجہد کر رہے تھے تو وہیں کم عرصے میں ہی بنگالی طالبعلموں نے خود کوایک طاقت کے طور پر منوایا اور پنجابی سامراج گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور بلا آخر بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دی لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

پہلی فتح حاصل کرنے کے بعد بنگلہ دیش کے طالبعلم پنجابی قبضہ گیر کی طرف سے دانستہ طور پر پیدا کرنے والے مسائل پر بحث ومباحثہ شروع کر کے اپنے آپ کو علم سے لیس کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اورطالبعلموں کے اندر قومی شعور کے پرچار کا آغاز ہوتا ہے اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے جو نہایت ہی کم عرصے میں ایشیا کا مقبول ترین طلبا تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے ایک نہایت ہی قلیل وقت میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء وطالبات اس یونین کا حصہ بن جاتے ہیں ۔

طالبعلموں کے انہی اداروں نےقوم کے رہنمائی میں صف اول کا کردار ادا کرنے کے ساتھ عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن اور دوسرے سیاسی جماعتوں سے مل کربنگلہ دیش کے مسائلِ کو حل کروانے میں ہر ممکن تگ ودو کی۔مغربی پاکستان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے وہ بنگلادیش میں موجود تمام وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر پنجاب لے جا رہے تھے جس کے خلاف طلبا تنظیموں سیمت عوامی لیگ نے اپنی آواز بلند کی کہ بنگالیوں کا استحصال کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔اس دوران بنگلادیش کےمتحرک طالبعلموں کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کےلیے ذلیل وخوار کیا گیا اور ان کو ڈرانے دھمکانے اور لاپتہ کرنے کی کوشش کی گئی یونیورسٹیوں میں پولیس اور فوج بلایا گیا جس کا مقصد یہاں پر موجود طلباء وطالبات کو سیاست سے دور کرنا اور ہراساں کرنا تھا۔

ایوبی آمریت کے جانے کے بعد پاکستان کے سربراہ یحییٰ بنے اور انہوں نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا تاکہ بنگلادیش میں اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لئے ایک جواز پیدا ہو کیونکہ بنگا لی آمریت کے خلاف تھے اس دوران مشرقی پاکستان کو ایک قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں پانچ لاکھ سے زائد بنگلالی موت کے منہ میں چلے گئے۔ یحییٰ جو اس وقت کہ سربراہ تھے انہوں نے دو ہفتوں بعد مشرقی پاکستان کا دور ہ کیا تو وہاں کے لوگوں نے سوالوں کے انبار کھڑے کر دیے کہ ہم پر اتنی بڑی آفت نازل ہوئی ہے لیکن مغربی پاکستان کے طرف سے ہمارے لئے کوئی امداد نہیں بھیجی گئی جو سراسر یہاں کے عوام کے ساتھ مغربی پاکستان کا تعصبانہ رویہ ہے ۔جنرل یحیٰی نے حالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے الیکشن کچھ وقتوں کے لئے ملتوی کر دیے۔اسی سال پاکستان میں الیکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں مشرقی حصے سے سے عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی نے 169 میں سے 167 نشت جیت لی تھی.اس دوران مغربی پاکسان اور پنجابی سامراجیوں کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اب گورنمنٹ مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ کرے گی۔

جنرل یحیٰی اقتدار کو سویلین حکومت کے ہاتھ میں دینا چاہتے تھے لیکن لیکن وہ مشرقی حصے کو پورا پاکستان نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ ان کو اس بات کا ڈر تھاکہ اگر حکومت عوامی لیگ کے ہاتھوں میں آگیا تو مغربی پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔ کافی عرصہ تک اسمبلیوں کو بحال نہ کرنے کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک تاریخی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی لیگ نے الیکشن کو واضح اکثریت کے ساتھ جیت لیاہے لیکن پھر بھی ہم جانتے ہیں کہ آپ حکومت ہمارے ہاتھوں میں دینے کو تیار نہیں ہیں اور آپ وہاں بیٹھ کر عوامی لیگ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

مجیب الرحمٰن نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج سے عوامی لیگ مغربی پاکستان کے ساتھ اس وقت تک عدم تعاون کا اعلان کرتی ہے جب تک حکومت ہمارے ہاتھوں میں نہ دی جائے، اس دوران ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء وطالبات نے عدم تعاون کے عمل کوسراہتے ہوئے اس عمل کو کامیاب کرنے کی کوشش کی اورہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایک اتحاد بنا لیا ۔

جنھارا امام جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے قریب مکین تھی وہ عدم تعاون تحریک کے بارے میں لکھتی ہے کہ میرا بیٹا رومی نے اجتجاج پر جاتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں سنڑل اسٹوڈنٹس یونین نے ایک میٹنگ بلایا ہے میں وہاں جارہا ہوں لیکن رومی کے ماں نے اسے یہ کہتے ہوئے جانے سے منع کیا کہ تم کسی اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ممبر نہیں ہو اور یونیورسٹی کے حالات بہت خراب ہیں تو وہاں کیوں جاؤ بقول رومی کے ماں کے کہ رومی نے کہا کہ بات اسٹوڈنٹس یا ممبر ہونے کی نہیں آگ ہر طرف سے ہمارے قوم کے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے میں یہاں گھر بیٹھ کر اپنے لوگوں کو جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہوں ۔اسی دوران تمام طلباء وطالبات نے مل کر پورے بنگال میں اجتجاجی مظاہرے کیے جس پر پولیس اور فوج کی جانب سے تشدد کیا گیا اور 16 طلبہ کو شہید جبکہ ہزاروں کے تعداد میں طالبعلموں کو زخمی کیا گیا تھاجس میں رومی بھی شامل تھے۔

ریاست کی جانب سے پر امن مظاہرین پر تشدد اور جبر کو پرکھتے ہوئے طالبعلموں کو یقین پختہ ہوگیا کہ اب پنجابی کے ساتھ کسی بھی صورت رہنا ناممکن ہے جس کا واحد حل ایک الگ اور خو د مختار مملکت ہے اور یہی مملکت ہی ہماری شناخت، ثقافت اور زبان کا ضامن ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ قبضہ گیر کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔حالات کو پرکھتے ہوئےطالبعلموں کی جانب سے آزادی کا مطالبہ کیا گیا اور اُن کا مطالبہ ون پوائنٹ ایجنڈے پر مشتمل تھا کہ ہم صرف اور صرف آزادی چاہتے ہیں اور اس آزادی کے لئے ہر طرح کے قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔

وہاں پر موجود ڈھاکہ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس رہنما حسن نے احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم آزادی کے علاؤہ کسی چیز پر راضی نہیں ہم 1948 سے اس ظلم وبربریت کا شکار ہیں.اس اجتجاج میں پانچ لاکھ سے زائد افراد موجود تھے اسٹوڈنٹس کی طرف سے شیخ مجیب کو بلایا گیا کہ آزادی کے سوا ہم کسی بھی ایجنڈے پر بات کرنے کو تیار نہیں شیخ مجیب نے بھی اسی مظاہرے میں آزادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گورنمنٹ کے تمام شعبوں سے مکمل بائیکاٹ کااعلان کیا جائے اور پاکستان کے ساتھ تمام قسم کے انتظامی تعلقات کو ختم کیا جائے۔مجیب الرحمٰن نے کہا کہ 23 سالہ تاریخ نے بنگالیوں کو تشدد ،ظلم و ستم ،رسوائی اور لاشوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ہماری اپنی ایک تاریخ بن گئی ہے کہ پنجابی نے 1952 سے لے کر آج تک ہمارے لوگوں کا خون بہایا اور پاکستان کے ان قوانین نے بنگلادیش کو ذلت ورسوائی کے سوا کچھ نہ دیا۔

جنرل یحیٰی نے حالات کی سنگینی اور بنگالی عوام کے پختہ ارادوں کو بھانپتے ہوئے ڈھاکہ میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کی اور اس مسلئہ کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن حالات بہت ہی زیادہ گھمبیر صورت حال اختیار کر چکے تھے اور کسی نتیجے پر نکلنے کے قابل نہیں رہے تھے جس کے باعث جنرل صاحب اچانک میٹنگ سے اٹھ کر اجلاس سے چلے گئے۔

قبضہ گیر کے پاس سب سے کارگر ہتھیار تشدد اور طاقت کا استعمال ہوتا ہے چنانچہ جنرل یحیی کی جانب سے فوجی آپریشن وہ آخری راستہ بچا تھا جسے وہ مطمئن کن انداز میں عملی جامہ پہنانے کا ٹھان لیتے ہیں۔ جنرل یحیٰی کے ڈھاکہ سے جانے کے پانچ گھنٹوں بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا.25 مارچ 1971 کے رات کو جامعہ میں فوجی گاڑیوں اور ٹینکوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جس نے چند ہی لمحے میں جامعہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا۔ جامعہ کے اقبال ہوسٹل میں 200 نوجوانوں کو شہید اور سینکڑوں کے تعداد میں میں موجود طالبعلموں کو زخمی کر دیاگیا تھا اور دوسرے طرف طالبات کو اُن کے ہاسٹلوں پر شدید قسم کے حملے کیے گئے۔

پاکستانی فوج نے طاقت کے تمام طریقہ کار کو بروئے کار لایا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں موجود پروفیسرز کے ہوسٹل پر فائرنگ کے نتیجے میں کئی لوگوں کو شہید کر دیا گیا تھا. ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈھاکہ یونیورسٹی کے حالات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ دوسرے دن جب ہمیں گروانڈ لے جایا گئے وہاں گروانڈ مکمل طور پر طالبعلموں کی لاشوں سے بھری پڑی تھی وہ مزید ایک طالبعلم کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہے کہ وہ اپنے شہید ہونے والے دوستوں کے لاشوں کے ساتھ کھڑا تھا آرمی کی جانب سے اس کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے انکار پر ہمارے سامنے اس کو گولی مار دی گئی ۔

جامعہ کے احاطے سے بہت سے طالبات کی ننگی لاشیں برآمد ہوئیں اور بہت سے فیمیل طالبات کو آرمی والے اپنے ساتھ لے گئے جنھیں جنسی ھوس کا شکاربنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔اسٹوڈنٹس کو شہید کرنے کے بعد جب ان کے کمروں اور بیگوں کی تلاشی لی گئی تو ان کے کمرے سے ہتھیار اور مزاحمتی ادب برآمد ہوئی جسے بعد میں جلا دیا گیا۔

جامعہ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا اور جو طلباء وطالبات اس سیاسی تحریک میں شامل تھے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور طالبعلموں کو لاپتہ کر دیا گیا اور ان کی لاشیں پھینکی گئی ۔طالبعلموں نے جنگی حالات کے نزاکت کو بھانپتے ہوئے گھر وں کو خیر آباد کر کے پہاڑوں اور جنگلوں کا رُخ کیا اور مکتی باہنی فوج میں شامل ہونے لگے مکتی باہنی موومنٹ آزادی کے لئے لوگوں کو مسلح جہدوجہد کی ٹریننگ دے رہی تھی۔

.ڈھاکہ یونیورسٹی میں موجود تمام اہم جگہوں کو بلڈوز کیا گیا جن میں شہید مینار چند کیفے تھے جہاں پر سٹوڈنٹ بیٹھ کر بحث و مباحثہ کرتے تھے جو آج بھی اسی نام کے ساتھ منسوب ہے

تاریخ دانوں کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ بنگالی ہجرت کرکے انڈیا اور اس کے سرحد پر بسنے شروع ہوئے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ 25 لاکھ سے زیادہ بنگالیوں کو شہید کیا گیا۔ پاکستان آرمی کی طرف سے بنگلہ دیش میں موجود ہزاروں کی تعداد میں جوان لڑکیوں کو اغواء کیا گیا اور ان کو جنسی زیادیوں کا نشانہ بنایا گیا جو خود انسانیت اور پاکستان کے منہ پر ایک زور دار تمانچہ ہے.بالآخر اس نو ماہ کے جنگ کے بعد 16دسمبر 1971 کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے اور شکست ان کا مقدر بنی اور بنگلادیش کو آزادی ملی ۔آج بھی دنیا کے غلام قوموں کے لئے بنگلادیش کے اطالبعلموں کی جہدوجہد ایک مشعل راہ ہے اور طالبعلم تسلسل کے ساتھ محکومی کے خلاف برسر پیکارہیں۔