بلوچوں کوجعلی مقابلے اور ٹارچرسیلوں میں قتل کرکے لاوارث دفنانا پاکستان کا واضح جنگی جرم ہے۔ بی این ایم

309

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں اور بلوچ نسل کشی نہ صرف تیزی سے جاری ہے بلکہ اس میں شدت لائی جا رہی ہے۔ نیو کاہان میں پانچ افراد کو ایک جعلی انکاؤنٹر میں قتل کیا گیا جبکہ دو روز قبل دس افراد کو قتل کرکے نامعلوم اور لاوارث قرار دے کر ان کی لاشیں چھیپا فاؤنڈیشن کے ذریعے مستونگ میں ”نامعلوم افراد“ کی قبرستان میں دفنا دی گئیں۔ اس قبرستان میں اس سے پہلے یہاں ایدھی فاؤنڈیشن اور دوسری فلاحی تنظیموں نے کئی لاشیں دفن کرکے ایک نیا قبرستان قائم کی ہے جس میں اب تک ڈیڑھ سو زائد افراد کو لاوارث قرار دیکر دفنایا گیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے جن پانچ افراد کو جعلی انکاؤنٹر میں قتل کر دیا ہے اور دس افراد کو چھیپا فاؤنڈیشن کے ذریعے لاوارث قرار دے کر دفن کی گئی ہے، ان میں سے کسی کو بھی شناخت کیلئے کسی کو نہیں دکھایا گیا ہے۔ جدید دور میں ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانا انسانی حق تھا لیکن انہیں خاموشی سے سپردخاک کرکے ریاست پاکستان اپنے جنگی جرائم کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ ان قاتلوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ خون جہاں بھی بہتا ہے، وہ اپنا نقش ضرور چھوڑ دیتا ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ایک مقتل گاہ اور قصاب خانہ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں مکمل طور پر ایک انسانی المیہ اور بحران جنم لے چکا ہے۔ عالمی اداروں کی خاموشی کی وجہ سے یہ انسانی بحران روز بروز سنگین تر صورت اختیار کر رہا ہے۔ اجتماعی قبروں، مارو اور پھینکو اور جعلی مقابلوں کے بعد اب لاپتہ بلوچوں کو لاوارث قرار دیکر دفنایا جا رہا ہے۔ اگر عالمی ذمہ دار اداروں نے پاکستان کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا تو یہ سلسلہ یہاں بھی نہیں رکے گا۔