بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں میں مسخ شدہ لاشوں اور جبری گمشدگی کی ایک نئی لہر کا آغاز کیا جا چکا ہےجس میں تسلسل کے ساتھ شدت لائی جا رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ گذشتہ دنوں ریاستی فورسز کی جانب سے ذہنی حوالے سے معذور غلام ولد شیہی کو ضلع کیچ سے جبری طور پر لاپتہ کر کے تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کی تشدد زدہ لاش کو ویرانے میں پھینک دیا گیا۔ جبری گمشدگی، تشدد اور مسخ شدہ لاشوں کا یہ تسلسل بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ رواں ہفتے میں ہی ضلع کیچ اور پنجگور ہی سے چار افراد کو جبری طور پر ماورائے عدالت گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا جنکی تاحال کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی میں جہاں ریاستی فورسز براہ راست ملوث ہیں تو دوسری جانب فورسز کے بینر تلے کام کرنے مختلف مسلح گروہوں نے ظلم و ستم پہاڑ کھڑے کیے ہوئے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگی کا ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل روانی کے ساتھ جاری ہے جس میں تمام انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھا جا رہا ہے۔ سیاسی کارکنان اور عام عوام کو دہائیوں سے زندانوں کے نذر کیا جا چکا ہے جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو پُرامن احتجاجی عمل کے پاداش میں زدوکوب کیا جارہا ہے اور بہت سے واقعات میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو پرامن احتجاج سے دستبردار کرانے کے لیے جانی و مالی نقصانات بھی پہنچائے گئے۔ گذشتہ روز لاپتہ راشد حسین بلوچ کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور خاندان کو احتجاجی عمل سے دستبردار کرانے کے لیے سنگین دھمکیاں بھی دی گئیں جبکہ ان کے بہنوئی کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی تسلسل کے ساتھ کے پامالی کے خلاف عالمی اداروں کی خاموشی ریاستی جبر کو ایندھن کا کام کر رہی ہے اور ظلم وستم میں شدت کا موجب بن رہی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جاری ظلم و ستم اور بربریت کے خلاف عالمی اداروں کی خاموشی اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ تمام عالمی اداروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی پامالی پر ریاست کو قانون کے کٹہرے میں لائے اور بلوچستان میں جاری ظلم و ستم پر غیرجانبدارانہ تحقیق کا آغاز کرے۔