باتیل کی سربلندیوں کا سر بلند – میرین بلوچ

441

باتیل کی سربلندیوں کا سر بلند

تحریر: میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فقط دانائیوں سے ہی مرادیں بر نہیں آتیں
ضرورت ہے کہ داناوں میں اک دیوانہ ہو جائے

قوم پرستی اور وطن دوستی کا جنون اتنا پرانا ہے جتنی وطن کی بقا کی ضرورت، وطن کا عشق ، وطن کی آزادی کی خواہش انسانی سرشت میں تب سے ہی موجود ہے لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ وطن کی دوستی اتنا بے رحم ہوگا، جس سے وطن کی دوستی اتنی گہری ہوگی جو میرے عظیم دوست کو شے مرید بناۓ گا جو میرے وجود و گمان سے بہت دور تھا۔

علم و شعور اور عمل ہی تاریخ میں مثبت کردار کا ضامن ہے، جس میں نوجوان خود بخود تیار ہوجاتے ہیں، جس میں آج باتیل کی گہری محبت میں گرفت ہونے والے فدائی سربلند، ایک بارود سے بھری جیکٹ بخوشی پہن کر اپنے آپکو اڑا کر، بلوچ قوم دنیا اور چین سمیت پاکستان جیسے قابض دشمن کے سامنے قومی فکر کو سچ ثابت کر دیا۔

سربلند تم نے آج روسی سلطنت اگنیٹی گرینوسکی نیروس کا یاد زندہ کیا جس نے فدائی حملہ کرنے سے پہلے ایک رات پہلے لکھا تھا کہ میں ہماری فتح کے شاندار دور میں ایک دن یا ایک گھنٹہ بھی زندہ نہیں رہوں گا لیکن مجھے یہ مکمل یقین ہے کہ میں اپنے موت کے ساتھ اپنی زمہ داری بھی پوری کردونگا۔

اسی طرح دالبندیں میں دشمن کو نشانہ بنانے والے ریحان آج فقط ناز کر رہا ہوگا کہ میرے سرزمین پر بلوچ کی منشاء و رضامندی کے بغیر کوئی بھی ہمارے سرزمین پر کامیابی حاصل کرنے کے خواب نہیں دیکھے گا۔ اور اس وقت جب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے ہوگے تو اس وقت آسمان پر گہرے کہکشاں اور دشت کے گواڑخ تم پر ناز کر رہے ہونگے اور ساگر کی گہرائی جب تمھارے وطن سے عشق کی گہرائی دیکھے گا تو اپنی گہرائی بھول چکا ہوگا کہ جب تیرے لہو کے قطرے باتیل پر پڑا ہوگا تو تیرے لہو کی خوشبو سے گواڑخ اور مہک اٹھے گی اس کو اپنا خوشبو یاد نہیں رہے گا اور سائجی کوہ شاشان اس وقت تم پر فقط ناز کر رہا ہوگا اور یہ کہہ رہا ہوگا کہ سربلند نے میرا سر اور مزید سربلند کیا سربلند تماری جدوجہد اور انسانی عملی ترقی کی تاریخ میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

سربلند تمارے بالاد سے بہنے والے خون کے قطرے، خوشبو کی مہک سے کئی برسوں سے سمندر کے کنارے سو سالوں سے رہنے والے گدانوں کا رنگ بھی بدلے گا اور ہمیشہ اپنے عملی مثبت روایات کا نگہبان رہے گا۔

سربلند تماری سربلندی شاشان سے کوہ البرز کے چوٹیوں کی طرح بلند اور تم اپنی آخری بہار کے قہقہے کے ساتھ ستم گر کی کم عمری پر قہقہے لگا کر تم اس وقت اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہوگے اور تم مکمل اعتماد کے ساتھ یہ کہہ رہے ہوگے کہ یہ روشنی عاجزانہ اور انکساریت کی روشنی ہوگی۔

سربلند عمر جان نے اس بات کو ثابت کیا کہ سرزمین کی پاسبانی کیلئے عمر ضروری نہیں بلکہ حوصلہ ، ہمت اور بہادری ضروری ہے اگر ہم نوجوان اپنی شناخت بقا و قومی آزادی کے لیئے عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہے تو ہم بحیثیت قوم تاریخ کے صفوں سے مٹ جائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں