اقوام متحدہ میں افغانستان کے سفیر اور مستقل مندوب غلام ایم اسحاق زئی نے پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام وضع کرنے میں کابل کی مدد کرے۔
جمعے کو افغانستان کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے غلام اسحاق زئی نے کہا: ’وہ جو ان (طالبان) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ شامل ہیں، یقینی طور پر اس سے فائدہ حاصل کریں گے، لہذا یہ کوئی سول وار نہیں ہے بلکہ مجرمانہ اور دہشت گرد نیٹ ورک ان کے کیمپوں کے پیچھے سے لڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر طالبان کی جنگی مشین کو مستقل طور پر ابھی بھی پاکستان کی طرف سے محفوظ پناہ گاہیں اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔‘
سلامتی کونسل سے خطاب میں غلام اسحاق زئی نے مزید کہا کہ ’ڈیورنڈ لائن کے قریب طالبان جنگجوؤں کے جمع ہونے، افغانستان میں داخل ہونے، فنڈز اکٹھے کرنے، اجتماعی تدفین کے لیے لاشوں کی حوالگی اور پاکستانی ہسپتالوں میں طالبان جنگجوؤں کے علاج کی ویڈیوز بھی منظرعام پر آچکی ہیں، جو نہ صرف سلامتی کونسل کی 1988 کی پابندیوں سے متعلق قرارداد کی خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کے عمل میں عدم اعتماد کی وجہ بھی ہے۔‘
افغان مندوب نے کہا: ’گذشتہ ماہ تاشقند میں پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے پیش نظر ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان کی پناہ گاہوں اور سپلائی لائنز کو ختم کرنے میں ہماری مدد کرے اور ہمارے ساتھ مل کر ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام وضع کرے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن قائم کرنے میں موثر مدد مل سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’افغانستان پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان افغان طالبان کی معاونت کے الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔ گذشتہ ماہ کے آخر میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے افغان صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ نشست کے دوران کہا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبان کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو طالبان سے خود پوچھنا چاہیے کیونکہ ہم ان کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ان کے ترجمان۔‘
دوسری جانب افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی ڈیبورا لیونز نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان میں جنگ ’ایک نئے مہلک اور زیادہ تباہ کن مرحلے‘ میں داخل ہو گئی ہے، جہاں طالبان کے حملوں کے دوران گذشتہ ماہ ایک ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔
افغانستان کی درخواست پر طلب کیے گئے اس اجلاس میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی ڈیبورا لائنز نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔
لیونز نے 15 رکنی کونسل کو بتایا: ’ایک فریق جو حقیقی طور پر بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے پرعزم تھا، اتنی زیادہ شہری ہلاکتوں کا خطرہ مول نہیں لے گا، کیونکہ یہ واضح ہے کہ جتنا زیادہ خون بہایا جائے گا، مصالحت کا عمل اتنا ہی زیادہ مشکل ہوگا۔‘
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی ایلچی نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ بڑے شہروں پر اپنے حملے فوری طور پر بند کردیں۔
ڈیبورا لیونز نے مزید کہا: ’سلامتی کونسل کو ایک غیر واضح بیان جاری کرنا چاہیے کہ شہروں کے خلاف حملے اب بند ہونے چاہییں۔‘
اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی نے افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافے سے خواتین کو درپیش مسائل اور معلومات تک رسائی کے معاملات پر بھی بات کی۔