بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4400 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر بشیر احمد بلوچ، خاران سے سیاسی سماجی کارکن ایڈووکیٹ صغیر بلوچ اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے کمیپ میں آکر اظہار یکجہتی کیا –
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہماری سوچ ہماری آواز اور جسم کو قید کیا ہوا ہے جہاں تک بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ قوم کی آواز ہے تو ہماری آواز کو ہمارے میڈیا اور نام نہاد دانشوروں کی بدنیتی سے یہاں پر سب کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے –
انہوں نے کہا کہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اب بلوچ کی آواز بلوچستان سے باہر گونج رہی ہے جو حکمرانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے –
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ پرامن جدوجہد کررہے ہیں حکمران زاتی مفادات کی خاطر بیرونی ملکوں میں پروپیگنڈہ کررہے ہیں –
انکا مزید کہنا تھا کہ بلوچ قوم کی خوشحالی کو تعبیر کرنے کا عمل بلوچ قوم کو مزید غلامی میں دھکیلنے کی مترادف ہے، بلوچ عوام ایسے تمام تر پر فریب بھونڈے اقدامات کو مسترد کرچکے ہیں اور ان سب کو بلوچ قومی غلامی کو مذید مضبوط کرنے کے مکروہ ہتھکنڈے سمجھتے ہیں کہ آج ہر بلوچ گلی کوچے میں موت کا رقص برپا کرنے کا مقصد سامراج کے لیے راستہ ہموار کرنے کی منصوبہ اور ایجنڈے ہیں –
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بیرونی ممالک کے بلوچ اور سیاسی پارٹیاں بلوچستان میں جاری مظالم اور جبر کو دنیا کے سامنے آشکار کریں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مہذب دنیا توجہ دے –