کوئٹہ اور کراچی میں عید کے روز لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج

321

عیدالاضحیٰ کے پہلے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ اور سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا۔ احتجاج میں چھوٹے بچوں نے حصہ لیکر عید کا پہلا دن پریس کلبوں کے سامنے گزارا جبکہ اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین آبدیدہ ہوگئے۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں عیدالاضحیٰ کے پہلے دن سہ پہر تین بجے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے کی اپیل بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے دی تھی۔ احتجاج میں لاپتہ افراد کی لواحقین سمیت طلباء تنظیموں کے رہنماوں اور کارکنان، ایکٹوسٹس، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے شرکت کی۔

ہاتھوں میں بینرز، پلے کارڈز اور پیاروں کی تصویریں اٹھائے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے نعرہ بازی کرتے ہوئے ریاست سے اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔

احتجاجی مظاہرے میں 12 سال قبل لاپتہ ہونے والے طالب علم رہنماء زاکر مجید کی والدہ شریک تھی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں گذشتہ 12 سالوں سے اپنے لخت جگر کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہوں اور حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوں لیکن انہیں بلوچستان کے ماؤں پر کوئی رحم نہیں آتی ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ جہانزیب، لاپتہ محمد سعید، لاپتہ غیاث الدین اور دیگر کے لواحقین نے شرکت کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سالوں سے سراپا احتجاج ہیں، ریاست کو اپنے عدالتوں پر بھروسہ نہیں تو اسکا سزا ہمیں نہیں دیا جائے۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے اب تک ہزاروں نوجوان ماورائے عدالت جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں یا مسخ شدہ لاشوں سمیت فیک انکاونٹرز میں قتل کردیئے گئے ہیں اس کے باوجود حکومتی وزیر سرفراز بگٹی ٹی وی پر بیٹھ کر لاپتہ افراد کے حوالے سے غلط بیانی کررہا ہیں۔

ماما قدیر بلوچ کے مطابق سرفراز بگٹی جب خود وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ گیارہ ہزار افراد جبری گمشدگی کا شکار ہیں لیکن آج وہ ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر اپنے ہی باتوں سے انکار کرنا ثابت کرتی ہے کہ سرفراز بگٹی جھوٹ بول رہے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سرفراز بگٹی کے مطابق ایک بھی شخص لاپتہ نہیں، جو ایک سفید جھوٹ ہے، بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کا اعتراف خود آرمی چیف سمیت آئی ایس پی آر کرچکے ہیں اور ان لاپتہ افراد میں کچھ افراد کی بازیابی کا بھی دعویٰ کرچکے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم گذشتہ 14 سالوں سے 28 عیدیں پریس کلبوں کے سامنے گزار چکے ہیں۔

دریں اثناء سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے مشترکہ احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا۔ احتجاج میں سندھ سجاگی فورم، بلوچ یکجہتی کمیٹی، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں، لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت بڑی تعداد میں خواتین، مردوں اور بچوں نے شرکت کی۔

متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے شکار بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ، بی این ایم کے لاپتہ رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ، آصف بلوچ اور رشید بلوچ کے لواحقین اور دیگر نے کہا کہ ہمیں ہمارے پیارے لوٹا دیں اگر ان پر کوئی الزام ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے لیکن اس طرح سالوں سے انہیں غائب کرنا بدترین ظلم ہے –

کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ بلوچوں اور سندھیوں کے احتجاجی کیمپ میں خواتین، بچوں سمیت سیاسی سماجی کارکناں کی بڑی تعداد نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان اور سندھ میں لاپتہ افراد بڑھتے ہوئے تعداد پر حکومت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے سے مظلوم قوموں کو خاموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دریں اثناء سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جبری گمشدگیوں کیخلاف کمپئین جاری رہی جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے پاکستان میں جبری گمشدگیوں حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔