کندھار : طالبان کے ہاتھوں نذر خاشا کے قتل پہ سماجی و سیاسی حلقوں کا سخت ردعمل جاری

606

افغانستان کے بلوچستان سے متصل سرحدی صوبہ کندھار میں گذشتہ دنوں قتل ہونے والے نذر محمد عرف خاشا کے قتل کے خلاف سماجی و سیاسی حلقوں سمیت معروف صحافیوں کی جانب سے شدید مذمتی ردعمل کا سلسلہ کا جاری ہے۔

خاشا کو گذشتہ دنوں افغانستان کے جنوبی صوبے کندھار کے مضافاتی علاقے سے مسلح افراد نے اغواء کیا تھا جسے بعد ازاں قتل کرکے لاش کو پھینک دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر اغواء کے وقت کا ویڈیو وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کچھ مسلح افراد جو بظاہر طالبان لگتے ہیں، مذکورہ ویڈیو میں گاڑی میں خاشا زوان کو بیٹھے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ایک مسلح شخص انکے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے پشتو میں ان پر چیختے ہوئے دکھائی دیتا ہے، چہرے پر مسلسل تھپڑ مار کر مزاح نگار کی تذلیل کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پہ سمیع یوسفزئی نے ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مزاحیہ نذر محمد کو طالبان کی جانب سے بے دردی سے قتل کیا گیا۔

پاکستان کے معروف کالم نویس و تجزیہ نگار حامد میر نے خاشا کو قتل کرنے والے طالبان کو ” جوکر ” قرار دیا۔

اس حوالے سے طالبان کے موقف میں باربار تبدیلی دکھائی دیا جارہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے سات جولائی کو اپنے ٹویئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ کندھار شہر میں ایک حملے میں خاشا مارے گئے تھے، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ نذر نے مذہبی رہنماؤں اور طالبان قیدیوں کی توہین کی۔

درین اثناء ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ ابتدائی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نذر نے حراست میں لیے جانے کے بعد فرار ہونے کی کوشش کی جس دوران وہ مارے گئے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی اعتراف کیا کہ یہ ہلاکت طالبان کی پالیسی سے متصادم ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات کا آغاز کیا جائے گا اور اس میں ملوث افراد کو جواب دہ بنایا جائے گا۔

دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے پہلے اس قتل سے انکار کیا لیکن جب تازہ ویڈیو سامنے آئی تو کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

دوسری جانب اس حوالے سے طالبان کو افغان حکومتی عہدہ داروں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

افغانستان کے نائب صدر اول امر اللہ صالح نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا کہ ’کندھار کے خاشا کی ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان شریعت کے پابند نہیں، ان کی عدالت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قانون اور انسانیت ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء منظور پشتون نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، یہ طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ایک مزاحیہ اداکار کی لاش ہے۔ جب سے دوحہ مذاکرات کے نتائج کو متنازعہ بنایا گیا ہے تب سے دنیا طالبان کے مظالم پر خاموش ہے۔ پشتونوں کے خلاف افغان سرزمین پر جنگ کی ایک نئی شکل جاری ہے۔

محسن داوڈ نے ٹویئٹر پہ لکھا کہ کندھار میں ایک افغان مزاحیہ نذر محمد کو طالبان کے دہشت گردوں نے انکے گھر سے اغواء کرلیا اور پھر اسے بے دردی سے میں قتل کیا گیا ۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ایک آدمی جس نے بہت سے چہروں پہ مسکراہٹ لایا اسی کو قتل کر دیا گیا دنیا دیکھیں کہ طالبان کا افغانوں کے خلاف مظالم جاری ہیں۔

معروف صحافی حامد میر نے سمیع یوسفزئی کے ویڈیو والی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ جہنوں نے اس افغان مزاحیہ کو قتل کیا وہ سب سے بڑے جوکر ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاست دان اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے خاشا کے قتل کے حوالے سے ٹویٹ کی کہ کچھ لوگ اب بھی طالبان کی حمایت کرتے ہیں

تاہم طالبان کے حمایتی سوشل میڈیا صارفین خاشا کے قتل کی بھر پور دفاع کررہے ہیں طالبان حمایتی سوشل میڈیا صارفین کا موقف ہے انہوں نے طالبان اور مذہبی شخصیات کے بارے غلط زبان استعمال کئے ہیں۔

تاہم بعض علماء کرام بھی محض اس بناء پہ کسی مسلمان کی قتل کو خلاف اسلام قرار دے رہے ہیں کہ اس نے صرف زبانی کلامی کسی کا مذاق اڑایا ہے۔