افغانستان کے صدر اشرف غنی نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان سے 10 ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔
یہ الزام افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ازبکستان میں ہونے والی سینٹرل اینڈ ساؤتھ ایشیاء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عائد کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اگر بات چیت نہ ہوئی تو ہم طالبان کا مقابلہ کریں گے، یہ امن کے لیے آخری موقع ہے.
خیال رہے کہ اس سے قبل افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے بھی گذشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پہ یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان فضائیہ طالبان کی مدد کررہی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ جو میرے اس بات پہ یقین نہیں کررہے ہیں میں انہیں ثبوت دینے کے لئے تیار ہوں۔
اس بیان کے متعلق پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشین کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے کیونکہ یہ نا صرف نچلی سطح پر کسی دوسری ریاست میں مداخلت ہے بلکہ یہ عمل 1990 میں جلال آباد جیسے جنگی جرائم جیسا ہے ، جو ناکام ہوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ روانڈا جیسی نسل کشی کا عمل افغانستان میں دہرایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ کوئٹہ اور پشاور میں طالبان کے حق میں ریلیاں بھی نکالی گئی ہے، پشاور میں افغان طالبان کے جھنڈا لہرانے اور ان کے حق میں نعرہ لگانے کے الزام میں پشاور پولیس نے دو افراد کو بھی گرفتار لیا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ طالبان کے حق میں ریلی نکالنا ان کے حامیوں کا جمہوری حق ہے، دنیا بھر میں کشمیر اور فلسطین کے ہمدرد کشمیریوں اور فلسطینیوں کیلئے ریلی نکالتے ہیں بلوچستان سے متصل کے علاقے میں طالبان کے حامیوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کی خوشی میں ریلی نکالی تاہم اس میں کوئی ریاست مخالف عمل نہیں دیکھا گیا، بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں طالبان کے حق میں باتیں کرتے ہیں۔
آج پاکستان کے قومی اسمبلی میں پی ٹی ایم کے رہنماء اور ایم این اے محسن داوڈ نے امراللہ صالح کے بیان کے متعلق بات کرنے کوشش کی تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے انہیں موقع نہیں دیا ۔